|
واشنگٹن ڈی سی۔ ویب ڈیسک ، ایجنسیز
شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں حیرت انگیز پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اور بظاہر اسد خاندان کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، شام کے وزیر اعظم محمد غازی جلالی نے اتوار کو علی الصبح کہا ہےکہ حکومت اپوزیشن کی طرف “اپنا ہاتھ بڑھانے” اور اپنی ذمہ داریاں عبوری حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
جلیلی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ’’میں اپنے گھر میں ہوں اور میں کہیں نہیں گیا، اور یہ اس ملک سے میرے تعلق کی وجہ سے ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ صبح کام جاری رکھنے کے لیے اپنے دفتر جائیں گے۔ انہوں نے شامی شہریوں سے عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ صدر بشار الاسد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
حمص میں شام کے سابق صدر حافظ الاسد کا مجسمہ گرا دیا گیا۔
شامی باغی کمانڈر حسن عبدالغنی نے اتوار (8 دسمبر) کو علی الصبح کہا کہ باغی فورسز نے شام کے مرکزی شہر حمص کو “مکمل طور پر آزاد” کر الیا ہے۔
سوشل میڈیا فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشارالاسد کے والد، شام کے سابق صدر حافظ الاسد کے مجسمے کے گرد لوگوں کا ایک بڑا ہجوم جمع ہے، لوگ مجسمےکے گرد رسی باندھ کر کھینچ رہے ہیں۔ اس کے بعد جشن منانے والے ہجوم نے انکے مجسمے کو گرا دیا۔
رائٹرز کے مطابق اس ویڈیو میں سڑک ، اسٹریٹ لائٹس، گنبد اور قریبی مسجد کے مینار سے محل وقوع کی تصدیق ہوتی ہے جو اس علاقے کی سیٹلائٹ تصویروں سے مماثل ہے، تاہم رائٹرز کا کہنا ہے کہ غیر جانبدار ذرائع سے تاریخ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
اہم شاہراہ کا کنٹرول
حمص کے زوال نے باغیوں کو شام کے اسٹریٹجک مرکز اور ایک ایسی اہم شاہراہ پر کنٹرول دے دیا، جس نے دمشق کو اس ساحلی علاقے سے کاٹ دیا ہے جو اسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے اور اس علاقے میں اس کے اتحادی روس کا بحری اور فضائی اڈہ ہے.
بشارالاسد کو اس تمام صورتِ حال کے دوران اپنے اتحادیوں سے بہت کم مدد ملی ہے۔ روس یوکرین میں اپنی جنگ میں مصروف ہے۔ لبنانی گروپ حزب اللہ، جس نے ایک موقع پر ہزاروں جنگجوؤں کو اسد کی افواج کی مدد کے لیے بھیجا تھا، اسرائیل کے ساتھ ایک سال سے جاری تنازعے کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے۔ اسی طرح ایران نے بھی اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں پورے خطے میں اپنی پراکسیز کو تنزلی کا شکار دیکھا ہے۔
امریکہ کا ردعمل
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ امریکہ کو شام میں فوجی مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے الگ، صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کا وہاں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس سے قبل ہفتے کے روز، سعودی عرب، روس، مصر، ترکی اور ایران سمیت آٹھ اہم ممالک کے وزرائے خارجہ اور سینئر سفارت کار پیڈرسن کے ساتھ، شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے دوحہ اجلاس کے موقع پر جمع ہوئے تھے۔
ایک بیان میں، شرکاء نے شام کے بحران کے ایسے سیاسی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا “جو فوجی سرگرمیوں کاخاتمہ اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔”
اس سے قبل دارلحکومت دمشق کے رہائشیوں نے، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے کی اطلاع دی ہے۔ دوسری جانب سیرین وار مانیٹرز نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ بشارالاسد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
خبررساں ادارے رائٹرز نے شام کے فوجی عہدیداروں کےحوالے سے بتایا ہے کہ اسد حکومت ختم ہو گئی ہے اور وہ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔
شام کی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ حکومت کے حامی ایک ایف ایم ریڈیو ’شام‘ نے خبر دی ہے کہ دمشق کا ائرپورٹ خالی کرا لیا گیا ہے اور لڑائی رک گئی ہے۔
اے پی کے مطابق، حکومت کے باغی حملہ آوروں نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق کے شمال میں واقع ایک فوجی جیل سے اپنے قیدیوں کو چھڑوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس سے ایک رات قبل اپوزیشن فورسز نے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور حکومتی فورسز پچھے ہٹ گئی تھیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے شام کے فوجی افسروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ صدر بشارالاسد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی سیرین وار مانیٹرز کے حوالے سے ایسے ہی دعوے کی اطلاع دی ہے۔
رامی عبدالرحمٰن نے جن کا تعلق سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس سے ہے، اے پی کو بتایا ہے کہ بشارالاسد نے اتوار کو دمشق سے فلائٹ لی تھی۔
(یہ خبر ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے)