موجودہ حالات پر کوئی بھی سنجیدہ گفتگو غزہ اور یوکرین کی بات کیے بغیر پوری نہیں ہوگی، کیونکہ یہ اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح سے حریف عالمی طاقتیں جنگ کے بعد کی عالمی معیشت کو کمزور کر رہی ہیں۔ غزہ میں کوئی بھی جگہ اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں۔ فلسطینیوں نے بم حملہ سے خود کو بچانے کی جدوجہد کے درمیان مہلوکین کو شمار کرنا بند کر دیا۔ تل ابیب کی ظالم فوجی مشین کے ذریعہ ملبہ میں تبدیل غزہ اب مردوں کی زمین جیسا نظر آتا ہے اور اسے نام نہاد ’بین الاقوامی طبقہ‘ کی سفارتی اور اخلاقی نامردی کی سب سے شرمناک مثالوں میں سے ایک کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس درمیان اپنے مغربی ساتھیوں سے بھر بھر کر اسلحہ حاصل کرنے والا یوکرین 2022 میں روس کے ذریعہ شروع کیے گئے حملے کے بعد سے اپنی خود مختاری کے لیے وجود کی جنگ میں الجھا ہوا ہے، جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ روس نے یوکرینی علاقہ کے تقریباً پانچویں حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور صدر زیلنسکی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ صلح کا کوئی راستہ نکالیں، کیونکہ اگر روس کو مزید اکسایا گیا تو غالباً وہ نیوکلیائی اسلحوں کے استعمال سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی امن کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ جنگ بندی سمجھوتہ دونوں فریقین کے ذریعہ مستقل خلاف ورزی کے سبب بے معنی ثابت ہو رہا ہے۔
پچھلی بار بین الاقوامی طبقہ 1992 میں ایک ساتھ آیا تھا جب اقوام متحدہ اور ناٹو نے بوسنیا میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم طریقے سے مداخلت کی تھی۔ تب سے سب کچھ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ 2020 میں اقوام متحدہ کے قیام کی 75ویں یوم تاسیس پر ادارہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گٹیرس نے رکن ممالک کو یاد دلایا کہ ’کثیر فریقی حکومت کے اثردار نظام کی عدم موجودگی میں بکھراؤ اور پولرائزیشن (100 سال قبل) پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنا‘۔
اگر اس بیان کا مقصد برسراقتدار طبقات کو یہ یاد دلانا تھا کہ جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے ہیں وہ اسے دہرانے کی غلطی کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بات ان سنی کر دی گئی ہے۔