|
سات ذرائع نے بتایا ہے کہ ایسے میں جبکہ انکی اتحادی حماس ، غزہ میں حملے کی زد میں ہے ، ایران کی قدس فورس کے سربراہ نے فروری میں بیروت کا دورہ کیاتھا۔ جسکا مقصد اس خطرے پر تبادلہ خیالات کرنا تھا کہ اگر اسرائیل کا اگلا ہدف، لبنان کا عسکریت پسند گروپ بنتا ہے، جس میں تہران کی بڑی علاقائی شراکت دار کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیروت میں قدس فورس کے سربراہ اسماعیل قانی نے حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ سے، حماس کے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر مہلک حملوں،پھر غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن جوابی حملوں کے بعد سے کم از کم تیسری بار ملاقات کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بات چیت کا رخ اسرائیل کی جانب سے اپنے شمال میں یعنی لبنان پر ایک بھرپور حملے کے امکان پر مرکوز رہا۔ ذرائع میں سے ایران کے اندرونی دائرہ اقتدار سے تعلق رکھنے والے تین ذرائع کا کہنا ہے کہ یوں شیعہ اسلامی گروپ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ جنگ کا یہ پھیلاؤ ، ایران پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک کے مقابلے میں، زیادہ طاقت کے ساتھ رد عمل کا اظہار کرے۔
پچھلے پانچ مہینوں کے دوران اسرائیل کی سخت دشمن حزب اللہ نے اسرائیل کی شمالی سرحدوں کے پار محدود تعداد میں راکٹ فائر کر کے ، حماس کی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔
تمام ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلی تمام ملاقاتوں میں جنکی کوئی اطلاع نہیں دی گئی، نصراللہ نے قانی کو پھر سے یقین دلایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران ، اسرائیل یا امریکہ کے ساتھ کسی جنگ میں الجھ جائے۔ اور یہ کہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اپنی جنگ خود لڑے گا۔
اسرائیلی حملوں سے لبنان میں حزب اللہ کے دو سو سے زیادہ لڑنے والے اور کوئی پچاس شہری مارے جا چکے ہیں اور لبنان سے کئے جانے والے حملوں میں ایک درجن اسرائیلی فوجی اور چھہ شہری مارے گئے ہیں اور ہزاروں لوگ کسی بڑی جنگ کے خوف سے گھر بار چھوڑکر بھاگ رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل کے جوابی حملوں میں شدت آئی ہے اور اسرائیل کے وزیر دفاع گیلانٹ فروری میں اشارہ دے چکے ہیں کہ اسرائیل حملوں میں اضافے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ اگر غزہ میں جنگ بندی ہو تو اس صورت میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کو فیصلہ کن طریقے پر سرحد سے ہٹایا جاسکے، تاہم انہوں نے سفارتکاری کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔
اس خبر کے لئے رائیٹرز نے چار ایرانی اور دو علاقائی ذرائع سے بات کی، اسکے علاوہ ایک لبنانی ذریعے سے بھی بات کی جس نے ملاقات کے مقصد کی تصدیق کی۔ دو امریکی ذرائع اور ایک اسرائیلی ذریعے نے کہا کہ ایران، اسرائیل اورحزب اللہ جنگ کے دھچکے سے بچنا چاہتا ہے۔ ان سب ہی نے حساس معاملات پر بات کرنے کے لئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ،اسرائیلی حکومت، تہران اور حزب اللہ نے کوئی موقف دینے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے ایران نے غزہ میں اپنے اتحادی کی حمایت میں ایسی کارروائیوں میں مدد کی ہے۔ جن میں امریکی مفادات پر عراقی گروپوں کے حملے بھی شامل ہیں۔ اس نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے خلاف حوثیوں کی کارروائی کے لئے انکو انٹیلیجینس اور ہتھیار فراہم کئے ہیں۔
تاہم ایران کے اندرونی ذرائع کے مطابق ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی ایران کو جنگ میں ملوث نہیں دیکھنا چاہتے جہاں حکومتی نظام کے ساتھ لوگوں کی مایوسی گزشتہ برس بڑے پیمانے پر مظاہروں کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
یمن کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئیر ریسرچر عبد الغنی ال اریانی کہتے ہیں کہ ایرانی عملیت پسند ہیں وہ جنگ پھیلنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر اسرائیل اکیلا ہوتا تو وہ لڑ سکتے تھےلیکن وہ جانتے ہیں کہ اگر جنگ بڑھی تو پھر امریکہ کو بھی اس میں شامل ہونا پڑے گا۔
اس رپورٹ کے لئے مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے۔