|
اسلام آباد — فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق سپریم کورٹ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 20 افراد عید سے پہلے سزائیں کاٹ کر اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جن افراد کو رہا کیا گیا ان کے فیصلے عدالتی ریکارڈ پر لے کر آئیں۔ ان فیصلوں سے معلوم ہو گا کہ ٹرائل میں کیا طریقۂ کار اپنایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے الزام میں 100 سے زائد افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے گزشتہ برس اکتوبر میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ مقدمات سول عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان کی نگراں حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ نے دسمبر میں پانچ، ایک کی اکثریت سے جاری کیے گئے فیصلے میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائلز کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم اس پر مختلف فریقوں کی جانب سے انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی جس کی سماعت سپریم کورٹ کا چھ رُکنی بینچ کر رہا ہے۔
بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔
بدھ کی سماعت کا احوال
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ فوجی عدالت کے فیصلے عدالتی ریکارڈ پر لائیں۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس میں کہا کہ فوجی عدالت کے فیصلے سے معلوم ہو گا ٹرائل میں کیا طریقۂ کار اپنایا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مرضی کے وکیل کی سہولت دی گئی یا نہیں۔
اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کے اجرا کو سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کر رکھا ہے۔ پھر بھی اگر آپ کہتے ہیں تو ہم فوجی عدالت کے فیصلے منگوا لیتے ہیں۔
دورانِ سماعت وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک سال تک حراست میں رہنے والے افراد کو سرٹیفکیٹ تک جاری نہیں کیا گیا۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا بلکہ آرڈر ہوتا ہے۔
‘شیر کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے’
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کی روشنی میں لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ اس کیس پر سماعت کے لیے کم از کم 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جائے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ جب ایک معاملے کو طے کر دے اسے نہیں چھیڑا جا سکتا۔ “شیر کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔” جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ “ہمیں اپنی طاقت کا مکمل ادراک ہے بیرسٹر صاحب۔”
‘بیٹے سے ملاقات کرائی جائے’
دورانِ سماعت تجزیہ کار حفیظ اللّٰہ نیازی نے جذباتی ہو کر کہا کہ میرا بیٹا حسان نیازی لاپتا ہے۔ میری اس سے ملاقات نہیں ہو رہی، مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔
حفیظ اللّٰہ نیازی نے عدالت کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور کہا کہ میری بیٹے سے ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔ اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو حسان نیازی سے متعلق تفصیلات معلوم کر کے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔ ان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے رٹ بھی دائر کر رکھی ہے۔
بینچ پر اعتراض
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے رائے دی کہ ایف بی علی کیس کے تناظر میں چھ رکنی بینچ اس کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتا جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی کی رائے کو جوڈیشل آرڈر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وکیل نے کہا کہ کمیٹی نے چھ ججز کو کیسے تشکیل دیا اس کے میٹنگ منٹس ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اگر آپ کو اس بینچ پر اعتراض ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے اس کے لیے ایف بی علی کیس کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا ایف بی علی کیس ہمارے سامنے چیلنج ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ میں اگر ججز کا فیصلہ برابری کے تناسب سے آئے تو معاملہ ریفری جج کو بھیجا جاتا ہے، یہاں اس کیس میں ایسا نہیں ہو سکتا۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر انٹرا کورٹ اپیل میں چار ججز اکثریتی بنیاد پر مرکزی درخواستوں کا فیصلہ برقرار رکھتے ہیں تو کیا ہو گا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پھر یہ 9 رکنی بینچ کا اکثریتی فیصلہ تصور ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ ڈاکٹرائن آپ کہاں سے لے کر آئے ہیں، یہ تو پھر وہی تین چار کے تناسب والا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔ انٹرا کورٹ اپیلوں میں جو بھی اکثریتی فیصلہ ہو گا وہی فیلڈ میں برقرار رہے گا۔
جسٹس یحیٰی آفریدی بینچ کا حصہ تھے جب جسٹس یحیٰی آفریدی خود بینچ سے الگ نہیں ہوئے تو ہم کیسے پیچھے ہٹ جائیں۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس میں کہا کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی پھر فیصلہ کرے کہ یہی چھ رکنی بینچ اپیلیں سنے گا تو پھر کیا ہو گا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پھر ہم اس بینچ کو تسلیم کر لیں گے، جس پر جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اگر فیصلہ تین-تین کے تناسب سے آیا تو پھر مرکزی درخواستوں کا فیصلہ برقرار رہے گا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کیس کا فیصلہ فل کورٹ کا تھا۔ جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کا فیصلہ سات ججز کا اکثریتی فیصلہ تھا، فرض کریں 9 رکنی بینچ بن گیا اور چھ ججز کا اکثریتی فیصلہ آیا تو کیا ہو گا؟ وکلا کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بینچ نے مرکزی درخواست گزاران کے اعتراض کے بعد معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا۔
فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے عید الفطر سے قبل ایک سال تک سزا پانے والے 20 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ اٹارنی جنرل نے عید الفطر پر رہا ہونے والے ملزمان کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔