چین کے وزیر اعظم لی شیانگ نے ڈیوس میں ہونے والے دنیا کے سیاسی اور تجارتی زعما کے اجلاس میں منگل کے روز کہا ہے کہ امتیازی تجارتی رکاوٹیں عالمی معیشت کے لئے ایک خطرہ ہیں، جو امریکی اقدامات کا ایک واضح حوالہ تھا۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں دو ہزار سترہ کے بعد پہلی بار شریک ہونے والے چین کے وزیر اعظم لی نے کہا کہ نئے امتیازی تجارتی اور سرمایہ کاری سے متعلق اقدامات ہر سال اٹھائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی رکاوٹ یا خلل عالمی معیشت کے بڑھنے کی رفتار کو سست کر سکتا ہے یا اسے روک سکتا ہے۔
گو کہ لی نے اس حوالے سے کسی ملک کا نام نہیں لیا، لیکن بیجنگ کا حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپی یونین سے تجارتی امور ، خاص طور سے ہائی ٹیک اور کلین انرجی کے معاملات پر تنازع رہا ہے۔
سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور چین کے تجارتی تنازعات بہت بڑھ گئے تھے اور صدر بائیڈن کے دور میں بھی یہ جاری ہیں۔ اکتوبر میں امریکہ نے اعلیٰ قسم کے مصنوعی ذہانت کے چپس کی بر آمد پر سخت نوعیت کی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر بیجنگ برہم ہوا۔
منگل کو ہی بیجنگ کے اس درپردہ الزام کے بعد امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم میں کہا کہ چین کے لئے جدید چپس پر پابندیاں سیکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لئے ہیں نہ کہ تجارت میں خلل ڈالنے کے لئے۔
ان کے الفاظ تھے،”میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان خصوصی طور پر کئے گئے اقدامات کا مقصد ٹیکنالوجی کی ناکہ بندی کرنا نہیں ہے اور یہ وسیع تر تجارت اور سرمایہ کاری کو روکنے کی نہ توکوشش ہے اور نہ ہی اس سے واقعی یہ رکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہمارے اسٹریٹیجک حریف اس قابل نہ ہوں کہ وہ امریکی ٹیکنالوجی کاخود ہماری یا ہمارے اتحادیوں اور ساجھے دار وں کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لئے استحصال کر سکیں۔
غزہ کی جنگ اور حوثی
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر نے غزہ میں ہونے والی جنگ کے حوالے سے کہا کہ یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے باوجود امریکہ کی کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلنے نہ پائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس جنگ کو پھیلنے سے روکنے اور ایسے حالات پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں ، جن میں کشیدگیاں کم ہوں۔
ورلڈ اکنامک فورم میں جیک سلیوان نے کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ باغیوں کے ساتھ تصادم کے معاملے کا انحصار ان پر ہے جو تہران اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں کے دارالحکومتوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے غزہ کی جنگ کو ایک بڑے تصادم میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے ایک راہ متعین کی ہے۔
ہم پورے خطے میں اپنے شراکت دار وں کے ساتھ مل کر اس پر سرگرمی سے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں اس امکان سے بچنا اور چوکنا رہنا ہوگا کہ در حقیقت ہم تنازعے کو پھیلنے سے روکنے کی بجائے کہیں اس کے پھیلنے کی راہ پر گامزن نہ ہو جائیں۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔