|
جارجیا میں بہت سی ماؤں سے ان کے بچے چھین لیے گئے، صحافیوں اور بچھڑے ہوئے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں خاندانوں نے ایک ایسی سکیم سے پردہ ہٹایا ہے، جس میں ان میں سے بہت سوں کو بتایا گیا کہ ان کے بچے مردہ پیدا ہوئے، یا پیدائش کے بعد جلد مر گئے، اور پھر ان بچوں کو جارجیا میں، یا ملک سے باہر ایسے خاندانوں کو بیچ دیا گیا، جو بچہ گود لینا چاہتے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقامی صحافیوں کی تحقیقات میں ایک ایسے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے جو گزشتہ پچاس برس سے غیر قانونی ’ایڈاپشن‘ پر کام کر رہا تھا۔ اس نیٹ ورک میں ہسپتال، نرسریاں، اور ایڈاپشن کے ادارے ملوث تھے، جو مل کر بچوں کو ان کے والدین سے چھین کر، ان کے پیدائشی ریکارڈز کو تبدیل کر کے انہیں نئے خاندانوں کو نقد رقوم کے بدلے بیچ رہا تھا۔
جارجیا میں طالب علم ایلین ڈیسادزے 2022 میں ٹک ٹاک پر ویڈیوز دیکھ رہی تھیں کہ انہیں اینا پانچولدزے نامی ایک لڑکی کی پروفائل نظر آئی جو بالکل ان جیسی دکھتی تھی۔
کچھ ماہ بعد، اور اینا سے مسلسل گفتگو کرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے کی دوست بن گئیں اور انہیں علم ہوا کہ وہ دونوں ہی ایڈاپٹ کی گئی تھیں، یعنی دونوں کو مختلف خاندانوں نے گود لیا تھا۔ گزشتہ برس دونوں نے جب ڈی این اے ٹیسٹ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ دونوں نہ صرف ایک دوسرے کی رشتے دار ہیں، بلکہ دراصل وہ ہم شکل جڑواں بہنیں ہیں۔
یونی ورسٹی میں انگریزی کے مضمون کی طالبہ اینا نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اگرچہ خوش ہیں، لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا سارا ماضی ہی ایک دھوکہ تھا۔
اینا اور ایلین ان لاکھوں بچوں میں سے دو بہنیں ہیں جنہیں گزشتہ کئی دہائیوں میں ان کے والدین سے چرا کر بیچا جاتا رہا۔
ایلین اور اینا کی عمر 19 برس ہے اور انہوں نے اپنے ماضی کو دو برس قبل کھوجنا شروع کیا۔
ایلین جو نفسیات کی طالبہ ہیں نے اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں یہ جانے بغیر کہ وہ بہنیں ہیں ایک دوسرے کی دوست بن گئیں۔ لیکن بقول ان کے، ’’ہم دونوں کو محسوس ہوا کہ ہمارے مابین ایک خاص رشتہ ہے۔‘‘
گزشتہ برس ان دونوں کے والدین نے انہیں بتایا کہ انہیں گود لیا گیا تھا۔ ان معلومات کے بعد ہی ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جینیاتی ٹیسٹ لیں گی جس سے بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ دونوں بہنیں ہیں۔
اینا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اس نئی حقیقت کو سمجھنا بہت مشکل تھا کہ جنہوں نے انہیں 18 برس پالا، وہ ان کے حقیقی والدین نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں غصہ بالکل نہیں آیا بلکہ جن لوگوں نے انہیں پالا ان کے لیے اینا کے دل میں تشکر کے جذبات پیدا ہوئے۔ بقول ان کے، ’’ساتھ ہی اپنے خونی رشتے کو پانے کی خوشی بھی مل گئی۔‘‘
ایلین اور اینا کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا اہتمام جارجیا کی ایک صحافی تامنا موسیردزے نے کیا جو فیس بک پر ایک ایسا گروپ چلاتی ہیں جو ان چرائے ہوئے بچوں کو ان کے والدین سے ملاتا ہے۔
اس گروپ کے دو لاکھ سے زائد ارکان ہیں۔ ان میں ایسی مائیں بھی ہیں جنہیں ہسپتالوں نے کہا تھا کہ ان کا بچہ مر گیا ہے، لیکن اب برسوں بعد بعض کو علم ہو رہا ہے کہ شاید ان کے بچے زندہ ہیں۔
تامنا نے یہ گروپ 2021 میں بنایا تھا جب انہیں بھی علم ہوا کہ ان کے والدین نے انہیں گود لیا تھا۔ انہوں نے اپنے حقیقی والدین کو ڈھونڈنے کے لیے یہ گروپ بنایا تھا۔
انہیں جلد ہی بڑے پیمانے پر بچوں کی خرید و فروخت کے اس آپریشن کے بارے میں علم ہوا۔ تامنا کا کہنا ہے کہ ماؤں کو بتایا گیا کہ ان کے بچے پیدائش کے بعد مر گئے اور انہیں ہسپتال کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ اب کے مطابق، ’’دراصل ہسپتالوں میں کوئی قبرستان نہ تھا، بلکہ انہیں خفیہ طور پر ایسے خاندانوں کو بیچا جا رہا تھا جو بچہ گود لینا چاہتے تھے۔‘‘
ان نئے والدین میں سے بھی بہت سوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بچہ گود لینے کا یہ عمل غیر قانونی ہے اور انہیں بچوں سے متعلق جھوٹی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔
تامنا نے اے ایف پی کو بتایا کہ بعض لوگ برسوں پر محیط انتظار کو محدود کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر بچے گود لے رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ 1950 سے 2006 کے دوران ایک لاکھ بیس ہزار بچوں کو ان کے والدین سے چرایا گیا۔ 2006 میں اصلاح پسند صدر میخائیل ساکاشیولی نے انسانی سمگلنگ کے خلاف اقدامات اٹھا کر اس سکیم کو ختم کیا۔
تامنا کا کہنا تھا کہ جارجیا میں والدین کئی مہینوں کی آمدن دے کر بچہ گود لے رہے تھے، جب کہ بیرون ملک تیس ہزار ڈالر میں، جو پاکستانی 80 لاکھ روپے سے زائد بنتے ہیں، بچے بیچے جا رہے تھے۔
ایلین کی والدہ لیا کارکوٹزے، جنہوں نے انہیں گود لیا تھا، کا کہنا ہے کہ شادی کے ایک برس تک بچہ نہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو بچہ گود لینے کا کہا۔
بقول ان کے یتیم خانوں میں انتظار کا وقت بہت طویل تھا جب کہ انہیں ایک دوست نے بتایا کہ ایک چھ مہینے کی بچی ایک مقامی ہسپتال میں گود لینے کے لیے موجود ہے، لیکن اس کی کچھ فیس لگے گی۔
لیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ایلین کو ان کے گھر لے آئے، لیا کو کبھی شک نہ ہوا کہ یہ سارا معاملہ غیر قانونی ہے۔ بقول ان کے اس گود لینے کے معاملے کو قانونی شکل دینے کے لیے انہیں کئی مہینے تک کاغذی کارروائی مکمل کرنی پڑی۔
اینا اور ایلین کی کہانی دو اور جڑواں بہنوں، اینا سارٹینا اور ٹاکو کہویتیا سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان دو بہنوں کو بھی مختلف خاندانوں نے گود لیا تھا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی وہ کئی برسوں بعد ایک دوسرے سے مل پائیں اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ بہنیں ہیں۔
تامنا کے فیس بک گروپ کے ذریعے اب تک 8 سو سے زائد خاندان اپنے بچوں سے مل چکے ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لیا گیا۔