|
زخمی بچے دہشت سے بچنے کے لیے ایک سڑک پر بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔شمال مغربی انگلینڈ میں پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق پیر کے روز ایک نوعمر لڑکے نے چاقو کے ساتھ بچوں کی ڈانس اور یوگا کی ایک کلاس پر حملہ کر کے، دو بچوں کو ہلاک اور 11 دوسرے افراد کو زخمی کر دیا۔
مرسی سائیڈ پولیس نے بتایا کہ ایک 17 سالہ لڑکے کو قتل اور اقدام قتل کے شبے میں لیورپول کے قریب سمندر کے کنارے واقع قصبے ساؤتھ پورٹ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ پولیس نے کہا کہ محرک واضح نہیں تھا، لیکن سراغرساں اس حملے کو دہشت گردی سے متعلق نہیں سمجھ رہے ہیں۔
پولیس نے کہا ہےکہ نو بچے زخمی ہوئے جن میں سے چھ کی حالت تشویشناک ہے۔ پولیس نے بتایا کہ دو زخمی بالغ افراد جنہوں نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی ان کی حالت بھی نازک تھی۔
پولیس چیف کانسٹیبل سرینا کینیڈی نے کہا، “ہمیں یقین ہے کہ زخمی ہونے والے بالغ افراد بہادری سے ان بچوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے جن پر حملہ کیا گیا تھا۔
“ٹیلر سوئفٹ کے تھیم پر مبنی ورکشاپ 6 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کے لیے اسکول کی چھٹیوں کے پہلے ہفتے میں منعقد کی گئی تھی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ انہوں نے خوفناک چیخیں اور خون سےلت پت بچوں کو دیکھا ۔
قریب ہی ایک دکان کے مالک برے وراتھن نے بتایاکہ ” وہ(بچے) نرسری سے بھاگ کر سڑک پر آگئے تھے ۔ ” انہوں نے گردن ، کمر اور سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ “انہیں،(بچوں کو ) یہاں، یہاں، یہاں، ہر جگہ چھرا مارا گیا تھا۔”
وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اس حملے کو “خوفناک اور انتہائی پریشان کن ” قرار دیا۔
مرسی سائیڈ پولیس نے بتایا کہ پولیس افسروں کو تقریباً دوپہر کے قریب لیورپول کے قریب ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ساؤتھ پورٹ میں ایک پتے پر بلایا گیا تھا۔ اس نے اسے ایک “بڑا واقعہ” قرار دیا لیکن کہا کہ عوام کے لیے کوئی بڑاخطرہ نہیں ہے.
پولیس چیف نے کہا کہ “جب وہ وہاں پہنچیں تو وہ یہ جان کر پریشان ہو گئیں کہ متعدد افرادکو، جن میں سے اکثر بچے تھے، ایک زبردست حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا اور انہیں شدید زخم آئے تھے۔”
ایک آٹو باڈی شاپ کے مالک کولن پیری نے کہا کہ چاقو کی شکار زیادہ تر چھوٹی بچیاں دکھائی دیتی تھیں ۔
پولیس نے بتایا کہ مشتبہ شخص، جس کی شناخت نہیں کی گئی ہے، حملے کی جگہ سے تقریباً 5 میل (8 کلومیٹر) دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کا تعلق اصل میں کارڈف، ویلز سے تھا۔
ریان کارنی نے، جو گلی میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں، کہا کہ ان کی والدہ نے ہنگامی کارکنوں کو بچوں کو لےجاتےہوئےدیکھا تھا جو خون میں لت پت تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کی پیٹھ پر چھریوں کے زخم دیکھ سکتی تھیں ۔
کارنی نے کہا کہ “یہ سب چیزیں حقیقی طور پر یہاں کبھی نہیں ہوتیں۔ “آپ بڑے شہروں، مانچسٹرز،لندن میں چھرا گھونپنے اور اس طرح کے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں ۔ یہ سنی ساؤتھ پورٹ ہے۔ لوگ اسے اسی نام سے پکارتے ہیں ۔ یہاں سورج چمکتا ہے ۔ یہ ایک خوبصورت جگہ ہے۔”
برطانیہ میں بچوں پر بدترین حملہ 1996 میں ہوا تھا ، جب 43 سالہ تھامس ہیملٹن نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنبلین میں اسکول کے جمنازیم میں کنڈرگارٹن کے 16 بچوں اور ان کی ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ نے تقریباً تمام ہینڈگنز کی نجی ملکیت پر پابندی لگا دی تھی ۔
برطانیہ میں آتشیں اسلحے سے بڑے پیمانے پر فائرنگ اور قتل کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں ۔ وہاں مارچ 2023 سے لے کر سال کے دوران تقریباً 40 فیصد قتل کے واقعات میں چاقو کا استعمال کیا گیا تھا۔
حملوں اور چاقو کے جرائم میں حالیہ اضافے کی شہ سرخیوں نے تشویش کو جنم دیا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت سے بلیڈ والے ہتھیاروں پر قابو پانے کے لیے مزید اقدامات کے مطالبے کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔