|
بلوچستان کی ضلعی حکومت کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں کسی بھی کانفرنس اور سیمینار کے انعقاد کے لیے اجازت لینے کی شرط عائد کی گئی ہے اس فیصلے پرصحافی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے پریس کلب کوئٹہ میں کانفرنسوں اور سیمنارز کے انعقاد کو ضلعی انتظامیہ سے پیشگی اجازت نامہ سے مشروط کرنے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی جانب سے منگل کو پریس کلب کوئٹہ کےصدر کو ایک نوٹیفکشن جاری کیا گیاہے کہ امن و امان کی موجودہ خراب صورتحال کے باعث کسی بھی تنظیم یا سیاسی جماعت کو کوئٹہ پریس کلب میں کانفرنس اور سیمینار کے انعقاد کے لیے ڈی سی آفس سے پیشگی اجازت لینی ہوگی۔
بی یو جے نے اپنے ایک جاری بیان میں ضلعی انتظامیہ کے اس غیر آئینی اقدام کو اظہار رائے کی آزادی پر پابندی اور میڈیا کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر کنٹرول کرنے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔
یونین نے کہا ہے پریس کلب ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے جو ضلعی انتظامیہ کے غیر آئینی احکامات ماننے کا پابند نہیں ہے۔ اظہار رائے پر پابندی اور قدغنوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان ملک میں رہنے والے ہر باشعور شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ مراسلہ نہ صرف اس آئینی حق کی نفی کرتا ہے بلکہ یہ فیصلہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔
رواں سال مئی میں بھی پولیس کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے مرکزی دراوزے کو اس وقت تالہ لگا کر بند کیا گیا تھا جب ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ کی تنظیم بلوچستان یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کلب میں گوادر میں باڑ لگانے کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جارہا تھا۔
اس عمل کے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
بی یو جے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پریس کلب ایک ذمہ دار ادارہ ہے جس نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا ہے، پریس کلب نے بلاامتیاز، بغیر کسی سیاسی وابستگی اور بنا فریق بنے کلب کا فورم آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنی آواز اٹھانے والوں کو دیا ہے۔
اس فیصلے کو فوری واپس لیے جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ صحافی برادری یہ سمجھتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کا یہ اقدام عوام میں ضلعی انتظامیہ اور موجودہ حکومت کی بدنامی کا باعث بنے گا لہذا اس فیصلے کو فوری واپس لیا جائے۔
کوئٹہ کے سنیئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ نے نوٹیفیکیشن کو آئین پاکستان کیے آرٹیکل 19کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے آزادی اظہار پر قدغن لگائی جارہی ہے۔
ان کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران 40 سے زائد صحافی مارے گئے ہیں اور ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ خبر دینے کی پاداش میں مارے گئے ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے کونسل ممبر حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ یہ ایک غیر قانونی اقدام ہےکیونکہ پریس کلب ایک آزاد ادارہ ہے جو کسی ڈپٹی کمشنر کے زیر سیایہ کام نہیں کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین میں پریس کی آزادی کے لیے جو اختیار دیا گیا ہے یہ عمل اس کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نےحکومت سے مطالبہ کیاکہ اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور مختلف ٹریڈ یونینز نے بھی اس عمل کی مذمت کی ہے
ماضی میں بھی خضدار پریس کلب اور دیگر علاقوں میں حالات خراب ہونے کے باعث پریس کلبوں کو بند کرنا پڑا ہے۔
صوبائی حکومت کیا کہتی ہے ؟
اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “بلوچستان حکومت یا ضلعی انتظامیہ نے کسی پریس کانفرنس کیلئے این او سی کی کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔”
ادھر ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے پریس کانفرنسز پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی پے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پریس کانفرنس کے علاوہ اگر پریس کلب کا ہال کسی بھی سرگرمی کےلیے بک کیا جائے گا جیسے کہ سیمینار، کانفرنس یا کوئی ٹریننگ یا مباحثہ تو اس کے لیے این او سی ضلعی انتظامیہ سے لیا جائے گا۔
ان کے مطابق کسی بھی سرگرمی کا انعقاد شہریوں کا آئینی حق ہے لیکن اجازت لینا بھی قانوناً ان کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ اگر کسی سرگرمی کی قانون اجازت نہ دے تو اس کے خلاف کارروائی کا اخیتار ضلعی انتظامیہ کے پاس ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے حالیہ نوٹیفکیشن کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے اپنے مشترکہ بیان میں اس عمل کو آزادی صحافت پر قدغن سے تعبیر کیا۔