|
کراچی–پاکستان میں رواں برس ڈینگی سے مرنے والوں کی تعداد پانچ تک جا پہنچی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے چار کا تعلق راولپنڈی اور ایک کا کراچی سے ہے۔
دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان بھی ان دنوں ملیریا، ڈینگی اور چکن گنیا جیسے وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ رواں برس سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ملک میں رواں برس ڈینگی کے علاوہ ملیریا کے اب تک ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
مذکورہ اعداد و شمار صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جس میں صرف سرکاری اسپتالوں کا ڈیٹا شامل ہے۔ اس تعداد میں نجی اسپتالوں کے رجسٹرڈ کیسز شامل نہیں ہیں۔
سرکاری طور پر جاری اعداد و شمار میں رواں برس پاکستان میں ڈینگی سے پانچ اموات رپورٹ ہوئی ہیں جب کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 30 اپریل 2024 سے اب تک دنیا بھر میں 76 لاکھ ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ اس عرصے میں ڈینگی سے تین ہزار افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت دنیا کے 90 ممالک میں ڈینگی کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اصل تعداد رپورٹ ہونے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سب سے زیادہ کیسز بنگلہ دیش، بھارت، میانمار، نیپال اور تھائی لینڈ سے رپورٹ ہو رہے ہیں جو 2023 کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
“تین دن تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ مجھے ڈینگی ہوا ہے۔ جسم میں کھچاؤ اور جوڑوں میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ گھر میں شادی کی تقریب کی وجہ سے بازار آنا جانا پڑ رہا تھا تو مجھے لگا کہ یہ تھکاوٹ کی وجہ سے ہو رہا ہو گا۔”
یہ کہنا ہے 50 سالہ مسز منیرہ احمد جو ڈینگی وائرس میں مبتلا ہو گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ایک رات انہیں تیز بخار تیز ہوا، جب وہ صبح ڈاکٹر کے پاس گئیں اور ٹیسٹ کرایا تو معلوم ہوا کہ انہیں ڈینگی ہے۔ بعدازاں ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور پلیٹلیٹس گرنے لگے۔
ان کے بقول وہ ایک ہفتہ بہت تکلیف دہ رہا اور وہ ابھی تک بہتر محسوس نہیں کر رہیں۔
منیرہ جیسے بہت سے مریض اس وقت ملیریا، ڈینگی اور چکن گنیا جیسے مرض کے ساتھ اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ بیشتر مریض اسے موسمی بخار سمجھ کر نظر انداز بھی کر رہے ہیں لیکن جب بخار نہ اترے تو انہیں ٹیسٹ کرانا ہی پڑتا ہے۔
اِن وائرس کی علامات کو کیسے سمجھا جائے؟
جناح پوسٹ میڈیکل اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر سلطان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس برس ملیریا اور ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کی ایک وجہ بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی نہ ہونا ہے جس سے مچھروں کی افزائش ہوئی۔
ڈاکٹر عمر سلطان کے مطابق اس وقت جناح اسپتال میں روزانہ ڈینگی اور ملیریا کے تقریباً 70، 80 مریض آ رہے ہیں۔ ان میں شدید علامات کے ساتھ آنے والے مریضوں کی تعداد آٹھ سے 10 بھی ہو جاتی ہے۔ تاہم اس بار چکن گنیا کے کیسز بھی نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ملیریا، ڈینگی اور چکن گنیا تینوں وائرس مچھر کے کاٹنے سے ہوتے ہیں اور مرض کی تشخیص خون کے ٹیسٹ کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹس (سی بی سی)، ملیریا اینٹی جن اور ڈینگی کے ٹیسٹ سے با آسانی ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر عمر سلطان کے مطابق چوں کہ وائرس کی کوئی ویکسین نہیں بنی اس لیے کوئی بھی مریض دوبارہ اس وائرس میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ مریض کو مکمل طور پر ٹھیک ہونے میں 15 سے ایک ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے کیوں کہ یہ قوتِ مدافعت کو شدید متاثر کرتا ہے۔
ماہر امراضِ خون ڈاکٹر ثاقب انصاری کہتے ہیں کہ ڈینگی، ملیریا اور چکن گنیا میں میں دو طرح سے فرق کرتے ہیں۔ ملیریا میں تیز بخار ہوتا ہے جو 102 سے 103 تک بھی چلا جاتا ہے اور بخار اترنے کے بعد اگلے چار سے چھ گھنٹے تک دوبارہ نہیں چڑھتا۔ یہ سلسلہ چار سے پانچ روز تک چلتا رہتا ہے۔
ان کے مطابق ملیریا میں ایک خاص دورانیے میں بخار لازمی اترتا ہے جب کہ ڈینگی میں بخار نہیں اترتا۔ ڈینگی میں پین کلر لینے کے بعد اس کا اثر رہنے تک بخار اترتا ہے اور اثر ختم ہوتے ہی دوبارہ بخار چڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا ہے کہ اگر کسی فرد کو ملیریا ہو جائے تو اس کا علاج بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ ‘پیراسائٹ فیور’ ہے اس لیے ادویات کا استعمال کرنے سے ہی اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈینگی کی تشخیص ہوتے ہی پانچ دن تک پلیٹلیٹس کم نہیں ہوتے لیکن چھٹے روز سے یہ کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس میں ‘ہیموگلوبن’ بڑھنے لگتا ہے۔ جب کہ ملیریا میں سرخ خلیے (ریڈ بلڈ سیل) ٹوٹ رہے ہوتے ہیں اور ‘ہیموگلوبن’ کم ہو جاتا ہے جس سے انیمیا یعنی خون کی کمی ہونے لگتی ہے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق ملیریا مثبت آنے میں مریض میں وائٹ بلڈ سیلز نارمل ہوتے ہیں جب کہ ریڈ بلڈ سیل اور پلیٹلیٹس کم ملتے ہیں۔ ڈینگی میں وائٹ سیل کم ہو جاتے ہیں اور پلیٹلیٹس چھٹے سے نویں روز تک کم ہونا شروع ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق چکن گنیا میں وائرل بخار ہوتا ہے جسے عام طور پر ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ چکن گنیا میں ہاتھوں اور پیروں میں سوزش اور پورے جسم پر نشانات پڑ جاتے ہیں۔ اس میں بھی پلیٹلیٹس کم ظاہر ہوتے ہیں۔
معالجین کے مطابق تینوں وائرس میں اموات کی شرح ملیریا اور ڈینگی میں زیادہ ہوتی ہے۔ اگر مریض بروقت تشخیص اور علاج نہ کرائے تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
تاہم گزشتہ چند برسوں سے بڑھتی آگاہی نے لوگوں کو بر وقت علاج کروانے پر راغب ضرور کیا ہے۔ لیکن اب بھی بعض گاؤں اور دیہات میں آگاہی کی کمی ہے اور اسے عام بخار سمجھنے کے رجحان نے اموات کے خطرات کو جنم دے رکھا ہے۔
‘پپیتے کے پتوں کا جوس مریض کی حالت مزید خراب کر سکتا ہے’
اگر کسی مریض کو ڈینگی یا ملیریا ہو جائے تو اسے پپتے کے پتوں کا جوس پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے پلیٹلیٹس تیزی سے بڑھ جاتے ہیں۔
البتہ طبی ماہرین کے مطابق اس پر کوئی طبی تحقیق موجود نہیں اور یہ محض ایک ٹوٹکہ ہے جو مریض کی حالت کو مزید خراب کرسکتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق پپیتے کے پتوں کے جوس سے معدے اور پیٹ کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے اور مریض کو قے ہو سکتی ہے۔ اس سے مریض کے جسم کا پانی مزید کم ہونے کا خدشہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے پھل جس میں وٹامن سی اور ڈی موجود ہو اس کا استعمال طاقت کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان پھلوں میں کینو، مسمی، مٹھے، سیب اور لیموں سب سے موزوں ہیں۔ مریض بیماری کے دوران پانی، او آر ایس (اورل ری ہائیڈریشن سولوشن) اور تازہ پھلوں کے جوسز کا استعمال زیادہ رکھے۔
معالجین کا مشورہ ہے کہ ایسے موسم میں جب ملیریا اور ڈینگی پھیلا ہوا ہے گھر میں مچھروں سے بچاؤ کے اسپرے اور کوائل کا استعمال کریں۔ گھروں، محلوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور اگر پانی ہو تو اس پر بھی اسپرے کریں۔
اس کے علاوہ دروازوں، کھڑکیوں پر جالی لگائیں اور سوتے وقت بھی مچھر دانی کا استعمال کریں۔ شام اور رات کے اوقات میں ہاتھوں، پیروں اور جسم کو ڈھانپ کر رکھیں۔
بار بار بخار ہونے اور جسم میں درد کی شکایت پر خود سے ادویات لینے کے بجائے ڈاکٹر سے لازمی رجوع کریں اور خون کے ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت تشخیص کےباعث علاج شروع کیا جا سکے۔