سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال موجودہ عہد کے نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن جیسے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بات امریکا کے ممتاز ترین ڈاکٹر کی جانب سے کہی گئی۔
یو ایس سرجن جنرل ڈاکٹر ویویک مورتھی نے کہا کہ بچوں کو سوشل میڈیا کو اجازت دینا ایسا ہی ہے جیسے انہیں غیر محفوظ ادویات کا استعمال کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے میں ناکامی ناقابل یقین ہے۔
انہوں نے یہ تبصرہ ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے حوالے سے کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں 15 سے 24 سال کے افراد میں ناخوشی کا احساس بڑھا ہے۔
رپورٹ میں نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن بڑھنے کی وجہ پر تو روشنی نہیں ڈالی گئی مگر یو ایس سرجن جنرل کے خیال میں اس کی وجہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنا ہے۔
انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق امریکی نوجوان اوسطاً روزانہ لگ بھگ 5 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔
ڈاکٹر ویویک مورتھی نے کہا کہ وہ ایسے ڈیٹا کے منتظر ہیں جس سے ثابت ہو سکے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بچوں اور نوجوانوں کے لیے محفوظ ہیں۔
انہوں نے ایسی قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا جس سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا سے ہونے والے نقصان سے بچایا جاسکے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں برسوں سے تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ انہیں نوجوان نسل کے ذہنی صحت کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
2021 میں ایک رپورٹ میں فیس بک کی اندرونی دستاویزات کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ انسٹا گرام استعمال کرنے والی 32 فیصد لڑکیاں اپنی شخصیت کا موازنہ دیگر سے کرنے کے بعد احساس کمتری کی شکار ہو جاتی ہیں۔
اکتوبر 2023 میں متعدد امریکی ریاستوں نے میٹا کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس کی سوشل میڈیا ایپس نوجوانوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
مقدمے کی دستاویزات کے مطابق کمپنی کی جانب سے دانستہ ایسے فیچرز ڈیزائن کیے جاتے ہیں جو نوجوانوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا عادی بنا دیتے ہیں۔