آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی، پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچایا، دونوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔
عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پر مشتمل ہے جو جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جاری کیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 20 فائڈنگز پر مشتمل ہے، فائنڈنگز میں سائفر، چشم دید گواہ اور سیکرٹ دستاویزات کی اہمیت شامل ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے نامناسب طریقہ کار سے فئیر ٹرائل کی استدعا کی، دونوں مجرمان کا دوران ٹرائل عدالت کے سامنے رویہ مدِنظر رکھا گیا، دونوں مجرمان نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں، ہمدردیاں لینے کے لیے بےیار و مددگار بننے کی کوشش کی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کا کہنا ہے کہ فائنڈنگز میں کہا گیا کہ فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں، سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، بطور وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی، پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچای۔
اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا، سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتا کیا گیا، سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا، بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارتِ خارجہ کو واپس نہیں بھیجا۔
سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا، بطور وزیرِ اعظم بانی پی ٹی آئی کی ذمے داری تھی کہ سائفر واپس لوٹاتے، وزارت خارجہ وزیرِ اعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی، اب تک بانی پی ٹی آئی نے سائفر واپس نہیں کیا، کیس سائفر سے متعلق ہے، جو وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا۔
سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے، 25 گواہان کے بیان قلمبند کیے گئے، سماعت میں وکلاء صفائی غیر سنجیدہ دکھائی دیے، 27 جنوری کو وکلاء صفائی غیر حاضر تھے، سرکاری وکیل موجود تھا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں، وکلاء صفائی عثمان گل اور علی بخاری کے پہنچنے پر جرح کی تیاری کے لیے وقت دیا، جب جرح کا کہا تو وکلاء صفائی نے انکار کردیا جس کے بعد سرکاری وکیل نے جرح کی۔
پراسیکیوشن نے نہ صرف گواہان بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کیے، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جس سےثابت ہو کہ پراسیکیوشن کے گواہان میں کمی رہ گئی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود کے مختلف وکلاء آئے، درخواستیں دے کر تاخیری حربے اپنائے، بانی پی ٹی آئی،شاہ محمود کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، ان کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے 342 کے بیان دیے لیکن دستخط نہ کیے، سابق وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھی، فئیر ٹرائل کیا، مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ پرجرح نہیں کی۔
واضح رہے کہ 30 جنوری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی۔