Thursday, December 26, 2024
ہومBreaking Newsکسی بلوچ نے پنجابی کو نہیں، دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو مارا، وزیراعلیٰ...

کسی بلوچ نے پنجابی کو نہیں، دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو مارا، وزیراعلیٰ بلوچستان


وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے، یہ ناراض بلوچ نہیں، دہشت گرد اور شرپسند ہیں اور یہ ظالم بہت جلد کیفر کردار تک پہنچیں گے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے، یہ دہشت گرد ہیں، ان کا کوئی قبیلہ نہیں، یہ دہشت گرد زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے جن دہشت گردوں نے گن کا انتخاب کرتے ہوئے کاروبار کرنے والے معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا، کیا ان دہشت گردوں کے ہمدرد ان کے اہلخانہ کو جواب دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ان دہشت گردوں کے لیے ہمدرانہ رویہ رکھتے ہیں اور سڑکوں پر ان کی وکالت کرتے ہیں، جیسے ریاست نے بلوچستان پر کوئی ظلم کیا ہے، حالانکہ ظلم تو یہ ہے کہ معصوم لوگوں کو ان کے خاندان کے ساتھ اتار کر شہید کردیا جائے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے واضح کیا کہ یہ لڑائی ریاست کی لڑائی ہے، دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوگی، ظالم کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا جاسکتا ، اور یہ ظالم بہت جلد کیفر کردار تک پہنچیں گے، ریاست اپنی رٹ قائم کرے گی جس کے لیے ہر ذریعہ استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سوسائٹی کے دیگر لوگ اور سیاسی جماعتیں فیصلہ کرلیں کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں جو آزاد بلوچستان کی بات کرتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں پاکستان کو مضبوط کرنے، بلوچستان کی ترقی کی بات کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کو ناراض بلوچ کہا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے صوبائی اسپیکر کی رولنگ موجود ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، شرپسند ہیں، اس زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس سے زیادہ فساد اور کیا ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو نشانہ بنایا جائے اور معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر شہید کیا جائے۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ مذاکرات کا حامی ہوں لیکن مذاکرات کس کے ساتھ کیے جائیں، معصوم مزدوروں کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کروں، البتہ جو مذاکرات کرنا چاہتا ہے، ان کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا آپ معصوموں کو قتل کریں اور ہم خاموش تماشائی بن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا بلوچستان کے لوگ پرامن ہیں اور وہ ترقی چاہتے ہیں، پھر یہ کون لوگ ہیں جو امن نہیں چاہتے، یہ بی ایل اے، دہشت گرد اور ان کے ہمدر، جو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، کچھ لوگ باہر بیٹھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ صرف دہشت گردوں اور فوج کی نہیں بلکہ یہ معاشرے کے ہر شہری کی ہے، ہم سب نے ملکر یہ لڑائی لڑنی ہے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھالینا اور پر یہ خام خیالی کہ آپ پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہوں گے، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ دہشت کے ذریعے آپ کے نظریہ کو مسلط کرنے دیا جائے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ تربت میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر آبادی کے اندر سے راکٹ آتا ہے تو کیا ایف سی والے وہاں پھول پھینکیں، آبادی والوں کو خود اس حوالے سے سوچنا ہوگا، کیا سوات کے لوگ محب وطن نہیں تھے، کیا ریاست کو مجبور کیا جارہا ہے کہ سوات کی طرح بڑے پیمانے پر مائیگریشن ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں بلوچ نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس پراپیگنڈا میں نہ آئیں، آپ اس دہشت گردی کا حصہ نہ بنیں، اگر بلوچ نوجوانوں کو گورننس یا نوکریوں سے متعلق شکوہ ہے تو بتائیں ہم وہ حل کریں گے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو قتل وغارت کی اجازت دے دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے اگر ہم چیکنگ کریں تو اعتراض ہے، چیک پوسٹ لگائیں تو اعتراض ہے نہ لگائیں تو اعتراض ہے لیکن اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پراپیگنڈا ٹول سے متاثر نہیں ہوں گے جو ریاست کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہماری عدلیہ سے اس پر آوازیں آتی ہیں کہ فلاں چیک پوسٹ ختم کریں۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 40 افراد کو قتل کردیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق گزشتہ رات بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردوں کی جانب سے بزدلانہ حملے کیے گئے، حملوں کا مقصد بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنا تھا۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کی موثر اور بروقت کارروائی میں 21 دہشتگرد ہلاک ہوئے، آپریشن کے دوران پاک فوج کے 10 جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 4 اہلکار بھی شہید ہوئے۔

صوبے میں سب سے زیادہ سرگرم عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اسے حالیہ برسوں میں خطے میں ہونے والی فائرنگ کے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا ہے۔




Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں