سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہےکہ اگر عہد کی خلاف ورزی نہ ہوتی تو پاکستان 1971 میں دولخت نہ ہوتا۔ انکا کہبا تھا کہ تنقید ہر کوئی کرے لیکن عدلیہ پر اعتماد بھی کرے جب کہ سوشل میڈیا کا اثر ججز پر نہیں ہونا چاہیے، کوئی جج سوشل میڈیا کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اسلام آباد میں ورکشاپ سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تنقیدکرنے والا بھی اگر اسی عدالت پر اعتماد کرے تو یہ عدلیہ کا امتحان ہے، تنقید ہر کوئی کرے لیکن عدلیہ پر اعتماد بھی کرے جب کہ سوشل میڈیا کا اثر ججز پر نہیں ہونا چاہیے، کوئی جج سوشل میڈیا کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرعہد کی خلاف ورزی نہ ہوتی تو پاکستان 1971 میں دولخت نہ ہوتا، کیا ہم آج اصول پر کھڑے ہیں؟ ہر ایک کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسی کا جرم ثابت ہونے سے پہلےہی یہاں اس کو سزا دے دی جاتی ہے، ایک غریب مالی نے پوچھا کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ میں نے مالی سے پوچھا کہ تمہارے ارد گرد سچائی ہے؟ مالی نے کہا آج کل سچ کا دور نہیں ہے لیکن سچ سب کو معلوم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب 18ویں ترمیم کا معاملہ اٹھا تو بہت سی قوتیں اس کےمخالف تھیں، مجھ سے ایک کورٹ رپورٹر نے پوچھا کہ سپریم کورٹ 18ویں ترمیم پر کیا کرے گی؟میں نے کہا میری رائے ہےکہ سپریم کورٹ کوکسی آئینی ترمیم کو نہیں چھیڑنا چاہیے، میں نے کہا تھا کہ اٹھارویں ترمیم اگر کالعدم ہوگئی تو استعفیٰ دےدوں گا، خبر لگی کہ اطہر من اللہ نے عدالت کو دھمکی دے دی۔