اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فارق ممکنہ طور پر جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیں گے۔ جسٹس بابر ستار نے سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کو خط لکھا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق خط کو توہین عدالت کیس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس بابر ستار ان کے اور اہل خانہ کی ذاتی معلومات بشمول امریکی رہائشی اجازت نامہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے کے بعد جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس عامر فارق سے درخواست کی ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
جسٹس ستار نے نشاندہی کی کہ ان کے خاندان کے افراد کی رازداری کی خلاف ورزی کی گئی، ان کے شناختی کارڈ اور مستقل رہائشی کارڈ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے۔
واضح رہے کہ 28 اپریل کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔
اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت دی تھی۔
اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لا کالج اور ہاورڈ لا کالج سے تعلیم حاصل کی، انہوں نے امریکا میں پریکٹس کی اور 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں، جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے اسکول چلا رہی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس اس وقت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا، جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستانی سکونت اختیار کی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں، جسٹس بابر ستار، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 6 ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کی شکایت کی ہے۔