Wednesday, December 25, 2024
ہومBreaking Newsفیس بک کے قیام کو 20 سال مکمل، دنیا پر اس کے...

فیس بک کے قیام کو 20 سال مکمل، دنیا پر اس کے کیا اثرات رہے؟


2004 وہ سال ہے جب براڈ بینڈ نے ڈائل اپ انٹرنیٹ کی جگہ لی جبکہ کلر اسکرین والے موبائل فونز مقبول ہونا شروع ہوئے۔مگر یہ سال ایک اور وجہ سے بھی خاص ہے اور وہ ہے فیس بک کا قیام۔

جی ہاں 4 جنوری 2004 کو ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک زیر تعلیم طالبعلم مارک زکربرگ (اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی) نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر دی فیس بک نامی سوشل میڈیا نیٹ ورک متعارف کرایا۔

اس سوشل میڈیا نیٹ ورک کا نام جامعات کے تدریسی سال کے آغاز کے موقع پر تیار کی جانے والی طالبعلموں کی ڈائریکٹری کے اوپر رکھا گیا تھا، جسے فیس بک کہا جاتا ہے۔

اسی سال انٹرنیٹ سرچ انجن یاہو نے فیس بک کو ایک ارب ڈالرز میں خریدنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

آئندہ چند برسوں کے دوران فیس بک کو دنیا بھر میں لوگ استعمال کرنے لگے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا نیٹ ورک بن گیا، جس کے 2024 میں 3 ارب سے زائد ماہانہ صارفین ہیں۔

اہم سنگ میل
فیس بک کا خیال بنیادی طور پر مارک زکربرگ کے ایک پرانے پراجیکٹ فیس میش سے لیا گیا تھا۔

فیس میش ایک ایسی ویب سائٹ تھی جس میں ہارورڈ کی طالبات کے چہروں کو کشش کے لحاظ سے ریٹ کیا جاتا تھا۔

سائٹ میں استعمال ہونے والی تصاویر کے لیے مارک زکربرگ نے یونیورسٹی کے سکیورٹی سسٹم کو ہیک کیا اور طالبعلموں کی شناختی کارڈز کی تصاویر کو بلا اجازت کاپی کرلیا۔

یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی نے فیس میش کو چند دن بعد ہی بند کر دیا جبکہ مارک زکربرگ کے خلاف انضباطی کارروائی بھی کی گئی۔

اس کے چند ماہ بعد مارک زکربرگ اور ان کے ساتھیوں نے نئی نیٹ ورکنگ سائٹ متعارف کرائی تاکہ ہارورڈ کے طالبعلم اپنے تدریسی ای میل ایڈریس استعمال کرکے اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہ سکیں۔

یہ سوشل نیٹ ورک بہت مقبول ہوا اور جلد ہی امریکا بھر کے تعلیمی اداروں میں استعمال ہونے لگا۔

ایک سال کے دوران اس پلیٹ فارم کے صارفین کی تعداد 10 لاکھ ہوگئی اور اگست 2005 میں اس کا نام بدل کر فیس بک ڈاٹ کام رکھا گیا۔

2006 کے اختتام تک دنیا بھر کے افراد کے لیے فیس بک کو متعارف کرا دیا گیا اور اس کا حصہ بننے کے لیے 13 سال سے زائد عمر کی شرط رکھی گئی۔

2006 میں اس کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ تھی جو 2007 میں 5 کروڑ جبکہ 2008 کے اختتام تک 10 کروڑ تک پہنچ گئی۔

2012 وہ سال تھا جب فیس بک کے صارفین کی تعداد ایک ارب سے زائد ہوئی اور اس موقع پر اس کے حصص اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیے گئے اور اس کی مارکیٹ ویلیو 104 ارب ڈالرز قرار پائی۔

آغاز میں اس کا ایک حصص 38 ڈالرز کا تھا اور 12 سال کے عرصے میں اس کمپنی کے حصص کی قیمت لگ بھگ 12 گنا اضافے سے 474 ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

اکتوبر 2021 میں مارک زکربرگ نے فیس بک کمپنی کا نام بدل کر میٹا رکھا۔

یہ کمپنی اس وقت فیس بک، انسٹا گرام، تھریڈز اور واٹس ایپ جیسی ایپس کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر پراڈکٹس کی مالک ہے۔

فیس بک صارفین کا دیگر پلیٹ فارمز سے مقابلہ

3 ارب ماہانہ صارفین کے ساتھ فیس بک اب بھی دنیا کا مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔

دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی اسے استعمال کرتی ہے جس کے بعد دوسرے نمبر یوٹیوب اور پھر تیسرے اور چوتھے پر واٹس ایپ اور انسٹا گرام ہیں۔

یہ تعداد اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ چین میں فیس بک دستیاب ہی نہیں۔

کونسے افراد فیس بک کو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں؟

مختلف رپورٹس کے مطابق 25 سے 34 سال کی عمر کے افراد فیس بک کو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، جن کے بعد 18 سے 24 سال افراد کا گروپ ہے جبکہ 35 سے 44 سال کے عمر کے افراد کا گروپ تیسرے اور 45 سے 54 سال کی عمر کے افراد کا گروپ چوتھے نمبر پر ہے۔

پرائیویسی مسائل کا سامنا

فیس بک کو 20 برسوں کے دوران متعدد ڈیٹا پرائیویسی مسائل کا سامنا ہوا ہے۔

ان میں سے ایک 2018 کا کیمبرج انالیٹیکا اسکینڈل ہے جس میں ایک برطانوی کمپنی نے کروڑوں فیس بک صارفین کی ذاتی تفصیلات کو بلا اجازت سیاسی اشتہارات کے لیے استعمال کیا۔

اس کے بعد بھی اس کمپنی کو متعدد پرائیویسی ڈیٹا اسکینڈلز کا سامنا ہوا اور کئی بار اس پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔

21 جنوری 2024 کو امریکی ایوان بالا کی عدالتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے مارک زکربرگ نے اپنے پلیٹ فارم پر بچوں کو پہنچنے والے نقصان پر معذرت بھی کی۔

اب میٹا کے کیا منصوبے ہیں؟

تمام تر مخالفت اور نوجوانوں کی عدم دلچسپی کے باوجود میٹا کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اکتوبر سے دسمبر 2023 کی سہ ماہی کے دوران کمپنی کی آمدنی 40 ارب ڈالرز جبکہ منافع 14 ارب ڈالرز رہا۔

میٹا کی جانب سے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور یہ کمپنی اپنی اے آئی چپس تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔




Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں