متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بجٹ عوام دوست یا کاروبار دوست نہیں بنایا گیا، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھیں تو پیٹرولیم لیوی کو بھتہ کہتی تھیں، اب اسے بڑھا رہی ہیں۔
رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ برائے سال 25-2024ء پر عام بحث کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ ایک روایتی بجٹ ہے، اسٹیٹس کو کی کوک سے روایتی بجٹ جنم لیتا ہے، 77 سال سے ہر سال ایک جیسا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کی 4 سال کی حکومت میں بھی روایتی بجٹ پیش کیا گیا، روایتی بجٹ دینا ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑے زمینداروں اور سرمایہ کاروں کو کیا ٹیکسز میں چھوٹ دیتے رہیں؟ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ہی بھاری ٹیکسز لگائے گئے ہیں، دنیا ٹیکس فری رجیم پر جا رہی ہے، پاکستان سے سرمایہ جا رہا ہے، ملیں بند ہو رہی ہیں، 12 لاکھ نوجوان پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک جا رہے ہیں، ہمیں بجٹ میں تیل، گیس اور پانی کے بلوں میں کمی کرنا ہو گی۔
فاروق ستار نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھیں تو انہوں نے پیٹرولیم لیوی کی مخالفت کی تھی، پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کیا گیا، معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، بجٹ میں جاگیر داروں اور وڈیروں کو استثنیٰ دیا گیا ہے، ظلم بند کریں، عام شہریوں پر حد سے زیادہ ٹیکس نہ لگائیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کم کریں گے تو مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی کمی ہو گی، برآمدات بڑھانے کے لیے بھی ٹیکسوں کو کم کرنا ہو گا، اصل خود مختاری معاشی خود مختاری ہے، 2008ء کے بعد این ایف سی نہیں ہوا، این ایف سی پی ڈی ایم ون نے نہیں دیا، پی ڈی ایم ٹو نے بھی نہیں دیا، بے روزگاروں کی شرح 15 فیصد ہے، 60 لاکھ لوگ ایک سال میں بے روزگار ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں تیل، گیس، بجلی و پانی کے بلوں میں کمی کرنی ہو گی، اب ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ روایتی بجٹ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو گا، کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے، بچے شہید ہو رہے ہیں، احساسِ محرومی اب احساسِ بغاوت میں بدل رہا ہے، ڈریں اس وقت سے جب مظفر آباد کی طرح باقی ملک میں عوام سڑکوں پر آ جائیں، صرف قومی مفاہمت اور ایجنڈے سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں، یہ کسی ایک جماعت کے بس میں نہیں، کراچی میں سرکلر ٹرین اور نکاسیٔ آب کے منصوبوں کے لیے پیسے رکھنے چاہئیں، 22 سال سے براہِ راست سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا، سرمایہ کاری تب ہو گی جب اپنے لوگ سرمایہ کاری کریں گے، کبھی پاناما، کبھی دبئی لیکس سامنے آتی ہیں، یہ سارے پیسے باہر کیسے اور کیوں جاتے ہیں؟