Monday, December 30, 2024
ہومHealth and Educationمجرم کو لوگ ہیرو کیوں بنا لیتے ہیں؟

مجرم کو لوگ ہیرو کیوں بنا لیتے ہیں؟


مجرم سے ہیرو بننے کی کہانی کی شروعات 51 سال پہلے اسٹاک ہوم سے ہوئی تھی۔اسٹاک ہوم سویڈن کا دارالحکومت اور یورپ کا ایک مشہور شہر ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نام ایک صورت حال سے بھی جڑا ہے جسے اسٹاک ہوم سینڈروم کہتے ہیں۔

میڈیکل کی اصطلاح میں سینڈروم بیماری کی علامات کو کہتے ہیں۔ اسٹاک ہوم سینڈروم کا لفظ اسٹاک ہوم کی ایک عدالت میں ایک بینک ڈکیتی کے مقدمے میں پہلی بار استعمال ہوا تھا جس کا تعلق ڈاکوؤں اور یرغمال بنائے گئے عملے سے تھا۔

اسٹاک ہوم سینڈروم اصطلاح کی طرح اسٹاک ہوم کے ایک بینک میں ہونے والی ڈکیتی کی واردات بھی ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جس نے آنے والے برسوں میں ماہرین کو یرغمال بنائے جانے کے واقعات میں ظالم اور مظلوم کے درمیان نفرت کی بجائے الفت پیدا ہونے کے اسباب اور مماثلت پر غور و فکر کی جانب راغب کیا۔

اس ڈکیتی کے دوران پیش آنے والے واقعات کچھ اتنے مختلف اور دلچسپ ہیں کہ اس پر دنیا کی کئی زبانوں میں فلمیں بنیں، کتابیں لکھی گئیں اور گلوکاروں نے نغمے تخلیق کر کے خوب شہرت کمائی۔

23 اگست 2023 کو اس واقعہ کے 50 برس مکمل ہونے پر مغرب کے اکثر اخباروں اور میڈیا کے اداروں نے اس پر مضامین اور تجزیے جاری کیے۔

اسٹاک ہوم میں پولیس اہل کار بینک کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو

23 اگست 1973 کو کیا ہوا

یہ جمعرات کا دن تھا۔ 32 سالہ جان ایرک اولسن محتاط انداز میں چلتے ہوئے اسٹاک ہوم کے سویریگز رکس بینک کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے بھیس بدلا ہوا تھا۔اوراپنے کپڑوں میں ایک سب مشین گن، ایک چاقو، دھماکہ خیز مواد اور رسی چھپا رکھی تھی۔ اس کے پاس ایک ٹرانزسٹر ریڈیو بھی تھا۔

جان ایرک اولسن کون تھا؟

اولسن ایک پیشہ ور ڈاکو اور تجوریاں توڑنے کا ماہر تھا۔وہ ایک مقدمے میں جیل کاٹ رہا تھا۔ لیکن یہ جس روز کا واقعہ ہے، ان دنوں وہ جیل سے عارضی رہائی پر تھا۔ اس دوران اولسن نے بڑا ہاتھ مارنے کے لیے بینک لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔اسے پورا یقین تھا کہ چند لمحوں میں وہ ایک بڑی رقم کے ساتھ بینک سے باہر ہو گا اور بقیہ زندگی آرام اور عیش سے گزار سکے گا۔

بینک میں کیا ہوا؟

اولسن نے بینک میں داخل ہونے کے بعد گن نکالی اور اس کا رخ چھت کی طرف کر کے چند فائر کرتے ہوئے اعلان کیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔

اس کا یہ جملہ بینک میں موجود لوگوں اور عملے کو خوف زدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیےچھپنے اور بھاگنے لگے۔

اش

اسٹاک ہوم کے ایک بینک میں ڈاکوؤں نے بینک کے ملازمین کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ 27 اگست 1973

اسٹاک ہوم کے ایک بینک میں ڈاکوؤں نے بینک کے ملازمین کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ 27 اگست 1973

23 اگست 197

دھمکی اور فائرنگ سے بینک کے اندر خوف و ہراس تو پھیلا لیکن اولسن کی مال ہاتھ آنے کی توقع پوری نہیں ہوئی اور بینک والوں نے تجوری کا منہ کھولنے کی بجائے پولیس کو بلا لیا۔جس نے بینک کو محاصرے میں لے کر فرار ہونے کے راستے بند کر دیے۔

اولسن نے عملے کے چار ارکان کو یرغمال بنا کر دھمکی دی کہ اگر اس کے مطالبات پر عمل نہ ہوا تو یرغمالیوں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دے گا۔ یرغمال بنائے جانے والوں میں 23 سالہ کرسٹین اینمارک بھی شامل تھی جو بینک میں اسٹینوگرافر کے طور پر ملازم تھی۔

اس عام سی ڈکیتی کا دورانیہ چند منٹوں سے دراز ہو کر چھ دنوں پر پھیل گیا۔ بندوق کے سائے میں خوف سے آلودہ اس گھٹے ہوئے ماحول میں ، جہاں کسی بھی لمحے اولسن کی سب مشین گن یا عمارت کے باہر مورچے سنبھالے پولیس کی گولی یرغمالیوں کو ہلاک کر سکتی تھی، کرسٹین کا کردار ایک رومانوی انداز میں ابھرا اور اس کہانی میں ایک نیا رنگ بھرگیا۔ اسٹاک ہوم سینڈروم کا جنم اس کردار کی کوکھ سے ہوا۔

کرسٹین نے اس کہانی میں کیا کردار نبھایا؟

جب اولسن ڈاکے کی نیت سے بینک میں داخل ہوا تو کرسٹین مایوسی اور افسردگی کے دور سے گزر رہی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ اسے چھوڑ کر جا چکا تھا اور وہ زندگی سے اس قدر مایوس تھی کہ نوکری چھوڑنے کا سوچ رہی تھی۔ مگر اولسن نے اسے دیگر تین یرغمالیوں کے ساتھ رسیوں سے باندھ کر فرش پر ڈال دیا تھا۔اب زندگی تو جا سکتی تھی لیکن وہ خود نہیں۔

اولسن کو بے چینی کے عالم میں ٹہلتے ہوئے دیکھ کر زندگی سے مایوس کرسٹین نے سوچا اسے زندگیاں بچانے کی لئے کچھ کرنا ہو گا، چاہے ڈاکو سے دوستی ہی کیوں نہ ہو۔

اسٹاک ہوم کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

اسٹاک ہوم کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

اگلے چھ دنوں میں وہ ایک دوستانہ اور مصالحانہ روپ میں سامنے آئی۔ وہ اولسن کے قریب ہوتی گئی۔ اس کے نتیجے میں یرغمالیوں کے ساتھ اولسن کا رویہ نرم ہوتا گیا۔

وہ گویا ڈاکو کی ترجمان بن گئی اور پولیس پر یہ زور دیتی رہی کہ وہ اولسن کے مطالبے مان لے اور اسے جانے دے تاکہ یرغمالیوں کی جان بچ سکے۔ جب پولیس نے ایک نہ سنی تو کرسٹین نے سویڈن کے وزیراعظم اولوف پالمے کو براہ راست فون کیا اور سخت لہجے میں کہا کہ آپ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہماری زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمیں اپنی جان کا خطرہ ڈاکو سے نہیں بلکہ پولیس سے ہے۔ پولیس کو واپس بلائیں اور ڈاکو کے مطالبے پورے کریں۔

42 منٹ تک جاری رہنے والی یہ فون کال وزیراعظم کو قائل کرنے میں ناکام رہی ۔ اخباروں نے اس واقعہ پر ایک یہ سرخی جمائی کہ کرسٹین اولسن کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔

جب بینک سے باہر نکلنے کے راستے مسدود دکھائی دینے لگے تو اولسن نے ایک نیا مطالبہ پیش کیا کہ کلارک اولوفسن کو فوری طور پر اس کے پاس لایا جائے، ورنہ وہ یرغمالیوں کو گولی مار دے گا۔ یہ وہ واحد مطالبہ تھا جسے انتٖظامیہ نے تسلیم کر لیا۔

کلارک او لوفسن کون تھا؟

کلارک او لوفسن ایک بدنام زمانہ ڈاکو تھا اور جیل میں اولسن کے ساتھ قید کاٹ رہا تھا۔جیل میں دونوں کی دوستی تھی۔ لیکن وہ اولسن کے بینک لوٹنے کے منصوبے سے بے خبر تھا ۔

اولوفسن کے آنےسے اولسن کو کچھ ڈھارس بندھی کیونکہ وہ پریشان کن حالات میں اپنے اعصاب قابو میں رکھتا تھا۔یرغمالیوں نے بعد ازاں بتایا کہ اولوفسن کے آنے سے اولسن کے لہجے کی تلخی میں بھی کمی آئی۔

ماہرین نفسیات اس پر حیران ہیں کہ ایسے افراد بھی جہنیں مجرموں نے یرغمال کے دوران باندھ کر رکھا رہائی کے بعد اغواکاروں کی تعریف کرتے کیوں نظر آتے ہیں۔

ماہرین نفسیات اس پر حیران ہیں کہ ایسے افراد بھی جہنیں مجرموں نے یرغمال کے دوران باندھ کر رکھا رہائی کے بعد اغواکاروں کی تعریف کرتے کیوں نظر آتے ہیں۔

دونوں کچھ کہنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے آپس میں مشورہ کرتے۔ دونوں نے باہمی مشاورت سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئے مطالبات کیے جن میں 34 لاکھ ڈالر کے مساوی رقم، دو بندوقیں، دو بلٹ پروف جیکٹیں، شہر سے نکلنے کے لیے تیز رفتار اسپورٹس کار اور کھانے پینے کی چیزیں شامل تھیں۔

دوسری جانب پولیس ایک ایسا منصوبہ بنا رہی تھی جس میں یرغمالیوں کی جان بھی محفوظ رہے اور ڈاکو بھی بچ کر جانے نہ پائیں۔

محاصرے کا اختتام

محاصرے کے چھٹے روز پولیس نے بینک کی چھت پر سوراخ کر کے بے بس کرنے والی گیس کے گولے اندر پھینکے اور پھر عمارت کے اندر داخل ہو کر دونوں ڈاکوؤں کو حراست میں لے لیا۔

اس اچانک کارروائی سے یرغمالی بحفاظت رہا ہو گئے لیکن جب انہیں اسٹریچرز پر ڈال کر باہر لایا جا رہا تھاتو ان کے چہروں پر خوشی اور اطمینان کی بجائے غصہ اور کرب تھا۔ وہ پولیس کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ اس نے ڈاکوؤں کے مطالبات کیوں نہیں مانے۔

کرسٹین نے پولیس پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکو ہمارے دوست تھے اور پولیس ہماری دشمن۔ وہ گولی چلانے اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی رہی، ہم ڈاکوؤں کی مصالحت پسندی سےبچے رہے۔ کرسٹین نے عدالت میں اپنی گواہی کے موقع پر ڈاکوؤں کے خلاف بیان دینے سے انکار کر دیا۔

آخر وہ کونسی چیز ہے جو ایک مظلوم کے دل میں ظالم کے لیے ہمدردی کے جذبات کو جنم دیتی ہے؟

آخر وہ کونسی چیز ہے جو ایک مظلوم کے دل میں ظالم کے لیے ہمدردی کے جذبات کو جنم دیتی ہے؟

عدالت میں پولیس کی جانب سے شہادت دیتے ہوئے ماہر نفسیات نیلس بیجروٹ نے کہا کرسٹین اس لیے ڈاکوؤں کے خلاف گواہی نہیں دے رہی کیونکہ وہ “نورمنسٹورگی سینڈروم “کے زیر اثر ہے۔

نورمنسٹورگی، اسٹاک ہوم کا وہ علاقہ ہے جہاں ڈکیتی کا نشانہ بننے والا بینک واقع ہے۔

نفسیاتی بیماری کی یہ اصطلاح پہلی بار اسٹاک ہوم کی عدالت میں استعمال ہوئی تھی ، جس کے موجد بیجروٹ تھے۔ بعد ازاں اسے اسٹاک ہوم سینڈروم کہا جانے لگا۔لیکن ماہرین نفسیات کی ایک بڑی تعداد اس کیفیت کو آج بھی ایک نفسیاتی بیماری کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور اس کا اندارج نفسیاتی امراض کی مستند کتابوں میں نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں پھنسے ہوئے لوگ اپنی جان بچانے کے لیے مجرموں کا ساتھ دیتے ہیں۔

اسکاٹ ہوم سنڈروم کوئی واحد واقعہ نہیں ہے

اسکاٹ لینڈ کے ایک بینک میں ڈکیتی کے بعد آنے والے برسوں میں کئی ایسے واقعات ہوئے جن میں یرغمالیوں نے کھل کر مجرموں کا ساتھ دیا۔ ایک ایسا ہی بڑا واقعہ فروری 1974 میں کیلی فورنیا میں پیش آیا جس میں ایک عسکری گروپ سیمبیونیز لبیریشن آرمی(ایس ایل اے) نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایک امیر گھرانے کی 19 سالہ لڑکی پیٹی ہرسٹ کو اغوا کر لیا جن کا ایک اخبار بھی تھا۔ اغوا کا یہ واقعہ عرصے تک میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا کیونکہ ہرسٹ اغواکاروں سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے ان کے ساتھ ایک بینک ڈکیتی میں حصہ لیا، جس پر اسے سات برس کی جیل ہوئی۔

برکلے کیلی فورنیا کا وہ اپارٹمنٹ جہاں سے عسکریت پسندوں نے پیٹی ہیرسٹ کو اغوا کیا۔ 5 فروری 1974

برکلے کیلی فورنیا کا وہ اپارٹمنٹ جہاں سے عسکریت پسندوں نے پیٹی ہیرسٹ کو اغوا کیا۔ 5 فروری 1974

ایک ایسا ہی واقعہ 1985 میں اس وقت پیش آیا جب مسلح افراد نے قاہرہ سے سین ڈیاگو جانے والے ٹرانس ورلڈ ایئرلائن کے ایک طیارے کو اغوا کر لیا۔ اغوا سے رہائی تک کا سفر دو ہفتوں تک جاری رہاجس دوران اغوا کاروں نے ایک مسافر کو ہلاک کر دیا۔ لیکن رہائی کے بعد زیادہ تر مسافروں نے اغواکاروں کے حق میں بیانات دیے اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

یرغمال بنانے والوں سے ہمدردی کا ایک اور بڑا واقعہ دسمبر 1996 میں پیرو میں پیش آیا جب باغیوں کے ایک گروپ نے جاپانی سفیر کی رہائش گاہ پر اس وقت دھاوا بولا جب وہاں ایک تقریب میں 700 سے زیادہ اعلیٰ سرکاری اور غیرسرکاری شخصیات شریک تھیں۔ مسلح گروپ نے ان سب کو یرغمال بنا لیا۔ تاہم جلد ہی زیادہ تر یرغمالیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ لیکن 72 افراد 126 دن تک ان کی قید میں رہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ طویل قید سے رہائی پانے والے اپنے اغوا کاروں کی تعریف کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

دنیا بھر میں اس سے ملتے جلتے واقعات منظر عام پر آ تے رہتے ہیں جن میں لوگوں کو ان مجرموں سے ہمدری ہو جاتی ہے جن کا وہ نشانہ بنتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اکثر اوقات ہمدردی کے اس جذبے کا تعلق جان بچانے سے ہوتا ہے، لیکن بعض واقعات میں یہ ہمدردی حقیقی معنوں میں انسیت میں بدل جاتی ہے جس کی وجہ کچھ مدت تک قائم رہنے والا باہمی تعلق اور قربت ہے۔ ہمہ وقت کسی کے ساتھ رہنے اور اسے مسلسل دیکھنے سے، چاہے وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو، ایک تعلق سا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔

مسلح افراد نے 19 جون 1985 کو قاہرہ سے سین ڈیاگو جانے والی ٹرانس ورلڈ ایئر لائنر کی پرواز کو اغوا کر کے 153 افراد کو یرغمال بنا لیا۔ جن میں سے کئی افراد 17 دن تک یرغمال رہے اور رہائی پر وہ اغوا کاروں کا ساتھ دیتے نظر آئے۔

مسلح افراد نے 19 جون 1985 کو قاہرہ سے سین ڈیاگو جانے والی ٹرانس ورلڈ ایئر لائنر کی پرواز کو اغوا کر کے 153 افراد کو یرغمال بنا لیا۔ جن میں سے کئی افراد 17 دن تک یرغمال رہے اور رہائی پر وہ اغوا کاروں کا ساتھ دیتے نظر آئے۔

اس تعلق کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جب کانوں کی رسائی ایک ہی آواز تک محدود ہو جائے تو رفتہ رفتہ وہ آواز اچھی اور سچی لگنے لگتی ہے اور اس سے الفت سی ہو جاتی ہے۔

کرسٹین نے، جن کی عمر اب 70 سال سے زیادہ ہے، اپنے ایک انٹرویو میں ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 50 سال کے بعد، میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا تھا۔ مجھے اس پر آج بھی فخر ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں، اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جب مجرم کو لوگ ہیرو کے طور پر قبول کر لیتے ہیں اور اس کی خامیوں اور جرائم میں بھی اچھائیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ شاید اسٹاک ہوم سینڈروم اسی کیفیت کا نام ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں