سب کی کوشش ہوتی ہے کہ روز مرہ کے معمول میں ایسی غذا شامل کریں جو متوازن اور غذائیت سے بھرپور ہو۔
ہر ممکن کوشش کے باوجود زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے تناؤ، نیند کی کمی اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے جسمانی تندرستی بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے، اس مقصد کے لیے ملٹی وٹامنز لیے جاتے ہیں۔
طبی تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ملٹی وٹامنز ہماری صحت و توانائی میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیلشیئم اور وٹامن ڈی ہڈیوں کی صحت میں معاون ثابت ہوتے ہیں، فولک ایسڈ پیدائشی نقائص کو کم کرنے کے لیے مؤثر ہوتا ہے، وٹامن بی اعصابی افعال میں توانائی اور اعانت بڑھانے میں معاون ہے، میگنیشیئم جسم کو آرام دینے کے لیے مددگار ہے، اینٹی آکسیڈینٹس بعض کینسر کو روکنے کے لیے مؤثر سمجھتے جاتے ہیں جبکہ وٹامن سی اور زنک دونوں ہی مدافعتی کام کو بڑھانے کے لیے معاون ہیں۔
اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 75 فیصد امریکی پھلوں کا استعمال نہیں کرتے جبکہ 80 فیصد سے زائد امریکی سبزیوں کے استعمال سے دور رہتے ہیں۔
سبزی اور پھلوں کے غذائی اجزا میں وٹامن ڈی، کیلشیئم، پوٹاشیئم، فائبر اور آئرن شامل ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق غذا میں چینی کی زائد مقدار استعمال کرنے والے بالغ افراد میں وٹامن اے، سی، ای اور معدنی میگنیشیئم کی مقدار کم دیکھی گئی ہے۔
ملٹی وٹامنز کی ضرورت
اگرچہ ملٹی وٹامنز صحت کے لیے ضروری ہیں لیکن ہر ایک کی صحت کی منفرد اور مختلف ضروریات ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملٹی وٹامنز صحت کو لاحق خدشات پوری طرح دور نہیں کر سکتے، جیسے ناقص عملِ انہضام، نیند نہ آنا یا ورزش کی زیادتی۔
کئی ملٹی وٹامنز انسانی جسم کی ضرورت ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ٹرائگلیسرائڈ کی بلند سطح کو نارمل کرنے میں معاون ہوتا ہے جبکہ لہسن ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کوئی ایک وٹامن لینے سے بہتر ہے کہ اپنی ضروریات کے مطابق ملٹی وٹامن لیے جائیں۔
مخصوص ’وٹامن روٹین‘ تلاش کرنا مشکل اور وقت طلب ہو سکتا ہے، بہت سارے سپلیمنٹس ایسے ہیں جو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیوں کے ساتھ منفی ردِ عمل دکھاتے ہیں، بہت سارے وٹامنز اور سپلیمنٹس ایک ساتھ لینے میں بھی محتاط رہنا چاہیے۔
ملٹی وٹامنز کی بہترین اقسام
اگر تناؤ کے باعث نیند اور توانائی کی کمی یا زندگی کے غذائی معمولات میں توازن پیدا نہیں کر پا رہے تو روزمرہ معمولات میں اعلیٰ معیار کے ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس کو شامل کر کے بہتر صحت کی راہ پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ایسے ملٹی وٹامن تلاش کرنے چاہئیں جو قدرتی اور الرجی سے پاک ہوں کیونکہ وہ جسم میں آسانی سے جذب ہو جاتے ہیں۔
ایسے ملٹی وٹامن لینے چاہئیں جو خالصتاً ٹیسٹ شدہ، مصنوعی رنگ یا اضافی اشیاء کے بغیر بنائے گئے ہوں۔
سپلیمنٹ تیار کرنے والی تمام کمپنیاں اپنی مصنوعات کی خریداری کے لیے قائل کرتی نظر آتی ہیں، تاہم اچھی ساکھ رکھنے والی کمپنیاں یہ بتاتی ہیں کہ ان کی مصنوعات کیوں بہتر ہیں؟ وہ سائنسی نتائج کی روشنی میں ملٹی وٹامن سپلیمنٹس تجویز کرتی ہیں۔
ملٹی وٹامنز بمقابلہ ذاتی نوعیت کے وٹامنز
ملٹی وٹامنز گزشتہ کچھ دہائیوں سے غذائی اجزاء کے خلا کو پُر کر کے صحت و تونائی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے ہیں، تاہم غذائیت کے ماہرین نے محسوس کیا ہے کہ ایک ہی طرز کے سپلیمنٹس ہر ایک کے لیے بہترین انتخاب نہیں ہو سکتے۔
دو جسم بالکل ایک جیسے نہیں ہوتے، بہت سارے عوامل غذائی ضروریات میں شامل ہوتے ہیں، اس لیے یہ سمجھنا زیادہ بہتر ہے کہ ایک ملٹی وٹامن ہر ایک کے لیے یکساں نتائج فراہم نہیں کرے گا، اس کے لیے کسی غذائی ماہر یا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ جسمانی ضروریات کے مطابق ملٹی وٹامنز تجویز کر سکے۔
درست سپلیمنٹ کا تعین
جسم کو درکار درست وٹامنز اور سپلیمنٹ لینے سے غذائی اجزاء کے خلاء کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور صحت کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے، جو ملٹی وٹامنز یا سپلیمنٹ لیے جا رہے ہیں وہ بہتر ہیں یا نہیں، اس بات کا تعین کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ ڈاکٹر یا غذائی ماہر سے رجوع کیا جائے، جو صحت، طرزِ زندگی اور کسی بیماری کے نتیجے میں لی جانے والی ادویات کا تجزیہ کرنے کے بعد ملٹی وٹامنز تجویز کرتے ہیں۔
صحت کے مسائل کی صورت میں طبی ماہر سے رجوع کر کے سب سے پہلے اس کی درست تشخیص اور اس تشخیص کی روشنی میں طبی ماہر کی جانب سے تجویز کردہ ادویات یا ملٹی وٹامنز لینا ہی دانش مندانہ عمل ہے، اس لیے کسی بھی مسئلے کی صورت میں اپنی مرضی سے کوئی بھی ملٹی وٹامن لینے سے فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔