|
“ میں روزانہ صبح ، دوپہر اور شام تین بار پانی بھر کر لاتی تھی، لیکن اب اپنے کام کاج کے بعد کچھ وقت آرام کا مل جاتا ہے”
یہ کہنا تھا شمالی بھارت کے گاؤں کنسل کی ببلی دیوی کا جو چند ماہ قبل تک دن میں کئی بار اپنے گھر سے آدھا گھنٹہ پیدل چل کر اپنی کمیونٹی کے نلکے سے اپنی روزانہ کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانے میں ہر روز لگ بھگ تین گھنٹے صرف کرتی تھیں۔
اور یہ کہانی گاؤں کے سبھی دوسرے گھروں کی تھی، بھارت بھر کے دیہاتی ایک عرصے سے اس مشقت کے عادی ہیں۔ بری لال کے مطابق پانی اکٹھا کرنا دن کے معمول کا حصہ تھا۔
پانچ سال پہلے تک بھارت کے وسیع دیہی علاقوں کے دو کروڑ گھرانوں میں سے ہر چھ میں سے صرف ایک کو اپنے گھرمیں ایک نلکا میسر تھا۔ لیکن اب حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ہر چار دیہی گھروں میں سے لگ بھگ تین کو ان کے گھروں میں ایک نلکا فراہم کیا گیا ہے۔
ایسا کیسے ممکن ہوا ؟ اس کا جواب ہے 50 ارب ڈالر کی وفاقی حکومت کی سرمایہ کاری۔
پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری کا ملک گیر پروگرام
بھارت کے دیہی گھرانوں کو پانی بھرنے کی روزانہ کی مشقت سے بچانے اور انہیں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا یہ کریڈٹ بھارت کی وفاقی حکومت کے 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر مبنی اس ملک گیر پروگرام کو جاتا ہے جسے اس نے 2019 میں شروع کیا تھا۔
اس پروگرام کے تحت کئی ماہ قبل ریاست ہماچل پردیش میں دیوی کے گاؤں کے ہر گھر میں پانی کا ایک نلکا نصب کیا گیا جس کے بعد اب وہ کہتی ہیں کہ انہیں اپنے معمول کے گھریلو کام کاج ختم کرنے کے بعد کچھ وقت آرام کا مل جاتا ہے۔
دھرم شالہ کے واٹر ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر سوریش مہاجن کہتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیوں کہ ہمارے پاس بہت دور افتادہ علاقے ہیں اور ایسے دور دراز، قبائلی علاقے ہیں جہاں درجہ حرارت منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ تو یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔
اب پوری ریاست میں پانی کی پائپ لائنیں بچھا دی گئی ہیں، بعض اوقات عمودی چٹانوں پر،پانی کے اسٹوریج ٹینکوں کے نیٹ ورک کے لیے۔ جن علاقوں میں پانی کی فراہمی کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہے وہاں پانی کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ انجینئرز پورے سال پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اینٹی فریزنگ ٹیکنیکس کا بھی مطالعہ کر رہے ہیں۔
مہاجن کہتے ہیں کہ اس پروگرام کا مقصد صرف پانی کے نلکے فراہم کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ہر گھر کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا بھی ہے۔ ماہرین صحت ایک عرصے سے زور دے رہے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پانی سے پھیلنے والی بیماریاں، مثلاً اسہال کے نتیجے میں ہزاروں اموات واقع ہوتی ہیں، صاف پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
واٹر ریسورسز ڈیپارٹمنٹ کے راکیش شرما، جو پانی کے اسٹوریج اور ٹریٹ منٹ کے ایک ایسے پلانٹ کی نگرانی کرتے ہیں جو لگ بھگ دس دیہاتوں کو پانی فراہم کرے گا، کہتے ہیں کہ” ہم ہر روز ،ہر گھر کے، ہر فرد کو 70 لیٹر پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ ہم اس سے زیادہ دے سکتے ہیں، کم نہیں۔”
ماہرین کہتے ہیں کہ شمالی ریاستوں میں اس پراجیکٹ پر عمل درآمد نسبتاً آسان ہے لیکن مغربی، مشرقی اور جنوبی بھارت کے خشک علاقوں میں اسے چیلنجز درپیش ہیں۔
تاہم یہ پراجیکٹ ان دیہاتیوں کے لیے ایک نعمت ہے جن کے گھروں میں نلکے لگا دیے گئے ہیں۔ کنسل گاؤں کے انڈر گریجوایٹ اسٹوڈنٹ، اکشے کمار کو، جو اپنی والدہ کے ساتھ مل کر اپنے گھر کے لیے پانی بھر کر لایا کرتے تھے، اب پڑھنے کے لیے دو مزید گھنٹے مل جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق دیہی گھرانے جنہیں اپنے گھروں میں پانی دستیاب نہیں ہے، روزانہ پانی اکٹھا کرنے کے لیے مجموعی طور پر پانچ کروڑ 58 لاکھ گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اب جب کہ پائپ کے ذریعے پانی دستیاب ہو گیا ہے، حکام اس کے مناسب استعمال کو بھی یقینی بنائیں گے۔
اکشے کمار جو ایک عرصے تک طویل فاصلے سے پانی بھر کر لانے کی مشقت برداشت کر چکے ہیں، اس کی بچت کی اہمیت جانتے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں پر اس حوالے سے نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم پانی ضائع نہیں کرتے اور اگر میں کسی کا ٹیپ کھلا ہوا دیکھتا ہوں تو اسے بند کر دیتا ہوں۔
یہ یقینی بنانے کے لیے کہ پائپوں کے ذریعے دیہی آبادیوں کو فراہم کیا گیا پانی مسلسل ملتا رہے اور نلکے خشک نہ ہو جائیں، پانی کو محفوظ بنانے کے کلچر کی تعمیر انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔