|
عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیاہے کہ اس وقت دنیا بھر کے نصف سے زیادہ ملکوں کے بارے میں خیال ہے کہ اس سال کے آخر تک ان میں خسرہ کی وبا کے پھوٹنےکا بہت زیادہ خطرہ ہوگا۔
خسرہ اور روبیلا یا لاکڑا کاکڑا کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل ایڈوائزر نتاشا کروکرافٹ نے کہا، “خسرہ کے بارے میں ہم انتہائی فکر مند ہیں۔”
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی علاقے میں اس وبا کو روکنے کے لیے کم از کم 95 فیصد بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے لیے مکمل حفاظتی ٹیکے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن عالمی سطح پر ویکسینیشن کی شرح 83 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
پاکستان خسرہ سے سب سے زیادہ متاثرہ پہلے دس ملکوں میں شامل
عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں خسرہ کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں صرف سال 2023 میں جولائی سے دسمبر کے درمیان سات ہزار سے زیادہ افراد خسرہ کا شکار ہوئے تھے۔
وکٹوریہ اسپتال بہاولپور کے بچوں کے شعبے سے وابستہ متعدی امراض کے ایک ماہر ،قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ساجد نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ وہ پورے ملک کے بارے میں تو کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے لیکن پاکستان کے صوبے پنجاب میں 2024 کے پہلے سات ہفتوں تک کل مشتبہ کیسز 1334 تھے۔ جب کہ بہاولپور میں ان کیسز کی تعداد 104 تھی۔
انہوں نے کہا کہ سال 2023 میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں خسرہ کے مشتبہ کیسز 12470 تھے جن میں سے 3555 کی لیبارٹری سے تصدیق ہوئی تھی۔
بہاولپور میں سال 2023 میں خسرہ کے مشتبہ کیسز کی تعداد 272 تھی۔
خسرہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں مریض کی جان لے سکتی ہیں
ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ خسرہ وائرس سے پھیلنے والی انتہائی متعدی بیماری ہے۔ یہ بذات خود جان لیوا بیماری نہیں ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں مریض کی جان لے سکتی ہیں، خاص طور پر ان میں جنہیں حفاظتی ٹیکے نہ لگے ہوں اور جن کا مدافعتی نظام یا امیون سسٹم کمزور ہو اور جو غذائیت کی قلت کا شکار ہوں۔
پاکستان میں خسرہ میں غیر معمولی اضافہ کیوں؟“
انڈس ہاسپٹل کراچی میں شعبہ اطفال کی چئیر پرسن ڈاکٹر صبا شاہد نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو کہا کہ پاکستان میں خسرہ کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کی وجہ بچوں کو اس وبا کے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں والدین کی بہت زیادہ غفلت ہے۔ اور وہ اس غفلت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔
بچوں کی طبی مراکز کی بجائے گھروں میں پیدائش
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ پاکستان میں خسرہ کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کی وجہ بچوں کو اس وبا کے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں والدین کی بہت زیادہ غفلت اور کسی طبی مرکز کی بجائے گھروں میں بچوں کی پیدائش ہے، جس کی وجہ سے ان کے حفاظتی ٹیکوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی۔ جو ہسپتال میں پیدا ہونے والے بچوں کی لازمی طور پر ہو جاتی ہے۔
رجسٹریشن کرانے کے طریقے سے والدین کی نا واقفیت
ڈاکٹر صبا نےکہا کہ خسرہ کے ٹیکے لگوانے میں کوتاہی کی ایک وجہ والدین کی ناخواند گی اور رجسٹریشن کرانے کے طریقے سے ناواقفیت یا ان کے لیے کسی طبی مرکز تک پہنچنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں اس بیماری کے بارے میں زیادہ یا کچھ بھی معلومات نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو خسرہ کے ٹیکے نہیں لگوا پاتے۔
پولیو ویکسین کے حوالےسے پھیلی غلط فہمیاں
ڈاکٹر صبا نے خسرہ کے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں کوتاہی کی ایک اور بڑی وجہ پولیو ویکسین کے حوالے سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام ،خاص طور پر ناخواندہ والدین حفاظتی ٹیکے لگوانے کو اہم نہیں سمجھتے اور پولیو کے ٹیکوں کی طرح تمام حفاظتی ٹیکوں کو بچوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں اور یہ بھی خسرہ کے حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے کی ایک وجہ ہے۔
بیماری کا پہلا اور دوسرا ٹیکہ لگوانے میں طویل وقفہ
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ خسرہ کے ٹیکے نہ لگوانے کی ایک بڑی وجہ ان کے خیال میں یہ ہوسکتی ہے کہ اس بیماری کا پہلا ٹیکہ نو ماہ یا ایک سال کے بعد لگایا جاتا ہے اور دوسری خوراک پندرہ ماہ میں دی جاتی ہے اس لیے والدین اکثر اوقات ٹیکا لگوانا بھول جاتے ہیں۔
بیماری کی فلو سے مشابہت
ڈاکٹر ساجد نے بتایا کہ کیوں کہ اس بیماری کی علامات فلو جیسی ہوتی ہیں، اس لیے اگر یہ بیماری ہو جائے تو بھی والدین بچے کو ہسپتال لے کر نہیں جاتے اور اسے عام فلو ،بخار، کھانسی سمجھ کر ان کا علاج کرتے رہتے ہیں۔
بیماری کا عموماً دس دن میں خود ہی ختم ہو جانا
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیوں کہ یہ بیماری عموما ً دس دن بعد خود ہی ختم ہو جاتی ہے اس لے والدین صرف اس صورت میں بچے کو ہسپتال لاتے ہیں جب اس بیماری سے کوئی اور پیچیدگی پیدا ہو جائے، مثلاً نمونیہ،اسہال، کان میں انفیکشنز یا سانس کی تکلیف اور دماغ کی سوزش وغیرہ۔
خسرہ اور چکن پاکس یا لاکڑا کاکڑا میں مشابہت
ڈاکٹر محمد زمان خان اسیر نے بتایا کہ خسرہ کی طرف سے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں اس لیے بھی کوتاہی ہو جاتی ہے کہ اس کی علامات اسی قسم کی دوسری متعدی بیماری چکن پاکس یا لاکڑا کاکڑا سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن ان دونوں کی علامات اور علاج میں فرق ہوتا ہے۔
خسرہ اور لاکڑا کاکڑا میں فرق
اسکاٹ لینڈ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد زمان خان اسیر نے جو علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں متعدی امراض کے ڈاکٹر رہ چکے ہیں خسرہ اور لاکڑا کاکڑا میں فرق پر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ خسرہ کی بیماری بخار ،کھانسی اور آنکھوں کی سرخی سے یا فلو سے شروع ہوتی ہے۔جب کہ لاکڑا کاکڑا میں فلو ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر آنکھوں میں سرخی نہیں ہوتی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خسرہ میں نکلنے والے دانوں میں پانی نہیں ہوتا۔ جب کہ لاکڑا کاکڑا یا چکن پاکس میں جو دانے پیدا ہوتے ہیں وہ پانی سے بھرے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ساجد نے ان بیماریوں میں فرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ خسرہ میں سرخ دھبے چہرے سے شروع ہو کر جسم کے نچلے اور پھر اوپر کے دھڑ کی طرف جاتے ہیں جب کہ لاکڑا کاکڑا میں یہ جسم کے مرکز سے شروع ہوتے ہیں پھر ٹانگوں کی جانب اور پھر چہرے پر نمودار ہوتے ہیں۔ اور یہ دانے تین سے پانچ دن میں غائب ہو جاتے ہیں۔
لاکڑا کاکڑا کے دھبے مرحلہ وار نکلتے ہیں۔ جب پہلے دھبے نکلنے کے بعد ختم ہو جاتے ہیں تو پھر دوسرے دھبے نکلتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ ختم ہو جاتے ہیں تو پھر مزید نکلتے ہیں۔ اور عام طور پر چند روز میں غائب ہو جاتے ہیں۔
خسرہ میں جب دھبے ظاہر ہوتے ہیں تو بخار کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے جب کہ چکن پاکس میں دھبے نکلنے پر بخار کی شدت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
خسرہ میں ویکسین کی پہلی خوراک نو سے ایک سال تک اور دوسری خوراک پندرہ ماہ میں دی جاتی ہے۔
چکن پاکس میں دو خوراکیں، پہلی بارہ سے پندرہ ماہ میں اور دوسری چار سے پانچ سال میں دی جاتی ہے۔
والدین کیا کریں؟
حفاظتی ٹیکوں کی رجسٹریشن
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی پیدائش کے وقت ان کے حفاظتی ٹیکوں کی رجسٹریشن کرالیں ۔ گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ خسرہ کا پہلا ٹیکہ نو ماہ کی عمر میں لگتا ہے اور اس وقت تک والدین یا تو ٹیکہ لگوانا بھول جاتے ہیں یا مصروفیت کی وجہ سے یا اس کی اہمیت سے لاعلمی کی وجہ سے خسرہ کا ٹیکا نہیں لگوا پاتے۔
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ اس کا پہلا حفاظتی ٹیکہ بارہ سے پندرہ ماہ کی عمر میں اور دوسرا چار سے پانچ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کیوں کہ یہ مرض ہر وقت اور بہت زیادہ موجود ہے اس لیے پہلا ٹیکہ نو ماہ کی عمر میں، دوسرا ایک سال اور تیسرا چار سے پانچ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو یہ ٹیکا دو سال کی عمر تک نہ لگوا سکیں تو اپنے گھر کے قریب کسی بھی سرکاری ای پی ٹی مرکز پر بچے کو لے جا کر اس کا کورس مکمل کروا سکتے ہیں۔
دوسرے بچوں کو مریض بچے سے بچائیں
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ جوں ہی کسی بچے کو بخار اور ریشز پڑنا شروع ہوں، وہ فوری طور پر اسے گھر کے دوسرے بچوں سے الگ کر دیں تاکہ انہیں یہ بیماری نہ لگے۔ اور ان کے امیون سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے صحت بخش غذا فراہم کریں۔
کچھ دوسرے ممکنہ علاج
ڈاکٹر ساجد نے بتایا کہ بخار دور کرنے کے لیے اینٹی پائریٹک دوا دی جاتی ہے۔ وٹامن اے بھی جلد صحت یابی اور پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں دشواری ہو تو اسے سیال غذا دی جانی چاہیے۔ کبھی کبھی بیکٹیریا انفیکشن کو روکنے کے لیے اینٹی بائیوٹکس دینے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔