نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپا کم کرنے کی بات ہو تو ڈائٹنگ اور ورزش وغیرہ کو اہم عوامل خیال کیا جاتا ہے تاہم یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ماہرین نے اس حوالے سے ایک اور ایسی چیز کی اہمیت اجاگر کی ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ نیوز ویک کے مطابق ماہرین نے کہا ہے کہ موٹاپا کم کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے ڈاکٹر کی آواز کی ٹون اور الفاظ کا چناﺅ بھی اس شخص کے لیے موٹاپا کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
شارلٹ البری نامی ماہر کی قیادت میں ماہرین کی ٹیم نے اپنی اس تحقیق میں موٹاپے کے مریض کے ساتھ اس کے فزیشن کی گفتگو اثرات جاننے کی کوشش کی۔ طبی جریدے جرنل اینلز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے ڈاکٹر ز اور مریضوں کے مابین ہونے والے 246مکالموں کی ریکارڈنگز حاصل کرکے ان کا تجزیہ کیا اور ان کا متعلقہ مریضوں کے موٹاپا کم ہونے کی شرح کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔
اس تحقیق میں ماہرین نے ڈاکٹرز کی گفتگو کو تین کیٹیگریز ’اچھی خبر، بری خبر اور نیوٹرل‘ میں تقسیم کیا۔ جن ڈاکٹروں نے اپنے مریضوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مثبت رویہ رکھا اور انہیں موٹاپے اور اس سے نجات کے حوالے سے اچھی خبریں سنائیں، ان کے مریض بہت خوش پائے گئے اور ان میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی زیادہ تھی۔ دوسری طرف جن ڈاکٹروں نے موٹاپے کے متعلق انتہائی منفی گفتگو کی اور اس سے فوری نجات کی اشد ضرورت پر زور دیا، بصورت دیگر بری خبریں اپنے مریض کو سنائیں، ایسے مریضوں میں پریشانی اور ہچکچاہٹ کے جذبات پائے گئے اور ان میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی کم رہی۔
تیسرے نمبر پر جن ڈاکٹروں نے نیوٹرل گفتگو کی ، انہوں نے موٹاپے کے زیادہ نقصانات گنوائے ، نہ ہی مریضوں کو خوش کن باتیں سنائیں، ان کے مریضوں میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی بری خبر سنائے جانے والے مریضوں کے لگ بھگ برابر رہی۔ماہرین کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو ڈاکٹرز نے اچھی باتیں سنائیں اور زیادہ پریشان کن فقروں سے گریز کیا، ان مریضوں نے زیادہ سیشن جوائن کیے اور موٹاپا کم کرنے میں سنجیدہ نظر آئے۔ ان کے برعکس دوسری دونوں کیٹیگریز کے لوگوں نے ان کی نسبت لگ بھگ 50فیصد کم سیشن جوائن کیے، جس کا اثر ان کے موٹاپا کم ہونے کی شرح پر بھی پڑا۔