سائنس دانوں کے مطابق ادرک ایک پھول دار پودے سے حاصل ہوا ہے جس کی ابتدا چین سے ہوئی تھی، ہلدی، الائچی اور گلانگل جیسے سب ہی پودوں کا ادرک سے گہرا تعلق ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ صحت کے لیے کتنی بہترین چیز ہے؟ بدہضمی سے لے کر انسامی جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے تک یہ جڑی بوٹی متعدد فوائد کی حامل ہے۔
دنیا بھر میں لوگ ادرک کو نہ صرف اس کے ذائقے کے لیے بلکہ اس کے صحت مند فوائد کے لیے بھی اپنی روز مرہ غذا میں شامل کرتے ہیں۔
ادرک ایک شاندار جڑی بوٹی ہے جسے کھانوں اور دواؤں کے شعبے میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اسے خام کھائیں یا کھانے میں ملا کر استعمال کریں، اس کےعلاوہ اچار کی صورت میں بھی یہ طبی لحاظ سے فائدہ مند ہوتی ہے۔
اس جڑی بوٹی کی کئی شکلیں ہیں جس میں خشک، تازہ، عرق اور پاؤڈر کی شکلیں شامل ہیں جنہیں مختلف چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ادرک کی چائے
ادرک کو استعمال کرنے کے بہت سے فائدے ہیں جس میں ایک ادرک کی چائے بھی ہے، اس کے لیے 2 انچ تازہ ادرک کا ٹکڑا لے کر ایک سے ڈیڑھ کپ پانی میں اچھی طرح ابالیں، اس کے بعد ٹھنڈا کر کے چھان لیں۔
روزانہ کی بنیاد پر ادرک کی چائے پینے سے ہاضمے میں بہتری آتی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ متلی اور الٹی کی کیفیت میں بھی بہت مفید ہے۔
اس کےعلاوہ ادرک کے کون سے فوائد ہیں ؟ آئیے جانتے ہیں:
پیٹ میں گیس کا خاتمہ
اگر تو آپ کو پیٹ میں اکثر گیس کی شکایت رہتی ہے تو ادرک اس مسئلے کے حل میں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ آنتوں میں گیس کو کم کرتی ہے، اس کے لیے اپنی غذا میں اس کی کچھ مقدار چھڑک کر استعمال کریں۔
پٹھوں کے درد کو کم کرتا ہے
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ادرک کا استعمال ورزش سے منسلک پٹھوں کے درد کو کم کرتا ہے۔
دو گرام ادرک کو کہنی اور کندھوں کی ورزش کرنے والے افراد نے11 دن تک بلاناغہ کھایا اور درد کے لیول کو کم کیا۔
اگرچہ ان فائدہ مند اثرات کو ظاہر ہونے میں کچھ دن لگیں گے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔
وہ لوگ جو دن بھر ورزش کرتے ہیں یا بھرپور جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں وہ خاص طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
کینسر کو بڑھنے سے روکے
کچھ تحقیق رپورٹس کے مطابق ادرک میں موجود بائیو ایکٹیو مالیکیولز سے کچھ اقسام کے کینسر جیسے جگر، جلد، بریسٹ اور مثانے کے کینسر کے پھیلنے کی رفتار سست کرنے میں مدد مل سکتی ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔