پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا بدھ کو اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے خطاب عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تقریب کے ذریعے فوج نے سوشل میڈیا پر ادارے کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور نوجوانوں کو اپنا مؤقف پہنچانے کی کوشش کی۔
بدھ کو جناح کنونشن سینٹر میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ‘نوجوان، قومی یکجہتی کا محور’ کے عنوان سے سیمینار ہوا جس میں ملک بھر سے جامعات اور کالجز سے دو ہزار سے زائد طلبہ شریک ہوئے۔
تقریب میں آرمی چیف کی شرکت اور ان کے خطاب کے بعد سوال و جواب باقاعدہ طور پر افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ کی طرف سے جاری تو نہیں کیے گئے۔ لیکن اس تقریب میں مدعو بعض صحافیوں اور طلبہ کے ذریعے اس تقریب کا احوال سامنے آ رہا ہے۔
آرمی چیف کے اس خطاب سے چند روز قبل آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم بھی لاہور میں پنجاب بھر سے آئے طلبہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
دونوں تقاریب میں موجود افراد کے مطابق دونوں اعلیٰ افسران سے سخت سیاسی سوالات بھی ہوئے جن کے انہوں نے جوابات دیے۔ لیکن ان تقاریب میں نوجوانوں کی زیادہ توجہ مجموعی طور پر ملکی نظام کے حوالے سے تھی۔ نوجوان معاشی مشکلات، بے روزگاری، مہنگائی، اُمور خارجہ اور دیگر مسائل پر تحفظات کا شکار تھے اور انہیں ان کے سوالات کے جواب بھی دیے گئے۔
‘فوج اور نوجوانوں کے درمیان خلیج دُور کرنے کی کوشش کی گئی’
تقریب میں شریک صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں سے بات کرنے کی سوچ پہلے بھی پاکستان فوج میں پائی جاتی تھی۔ لیکن ماضی میں یہ ‘ففتھ جنریشن وار فیئر’ کے نام پر تھی جس کو بعد میں پاکستان فوج نے خود بھی نو مئی کے دن بھگتا۔
غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ اس تقریب میں نوجوانوں نے اپنے تحفظات کے بارے میں کھل کر بات کی کہ ڈگری کے بعد انہیں ملازمت نہیں ملتی، ملک سے باہر جانا پڑتا ہے، امید ختم ہوتی جا رہی ہے اور تعلیمی نظام سے بھی انہیں شکایات ہیں۔
اُن کے بقول نوجوانوں نے ملکی مسائل، سیاست، روزگار کی عدم فراہمی، بیڈ گورننس، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت، سوشل میڈیا، غزہ کی صورتِ حال، کشمیر اور ایران سمیت تمام معاملات پر سوالات کیے اور ان کے بھرپور مکمل جوابات بھی ملے۔
غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ اس وقت تاثر یہ ہے کہ عسکری اداروں اور نوجوانوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ لہذا اس تقریب کے ذریعے غلط فہمیوں کے بارے میں بھی بات کی گئی۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لیے بغیر پاکستانی فوج کے سربراہان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہے اور اُنہیں ریاستی اداروں کے خلاف اُکسایا جا رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
آرمی چیف نے سوشل میڈیا سے متعلق کیا کہا؟
غریدہ فاروقی کے بقول سوشل میڈیا کے بارے میں آرمی چیف نے اپنا ذہن بھی بتایا اور قرآنی آیات کا حوالہ دے کر کہا کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کو ‘شیطانی میڈیا’ بھی قرار دیا۔
غریدہ کا کہنا تھا کہ ان تمام باتوں سے نظر آ رہا تھا کہ آرمی چیف نے فوج اور نوجوانوں کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے میں پیدا ہونے والی دُوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی۔
‘فوج بھی اب نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا چاہ رہی ہے’
تقریب میں شریک اینکر پرسن ثمر عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی نوجوانوں سے ملاقات کا مقصد یہ ہے کہ پروپیگنڈا کے شکار نوجوانوں سے بات کی جائے اور سوشل میڈیا پر فوج اور ملکی اداروں کے خلاف جو باتیں چل ہیں، اس تناظر میں فوج نے اپنا مؤقف نوجوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔”
ثمر عباس نے کہا کہ حالیہ عرصے میں پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو زیادہ انگیج کیا اور نو مئی کے بعد اس میں شدت آئی اور ملکی اداروں کے خلاف ان کا زیادہ استعمال کیا گیا جس کے مقابلے میں اب فوج ذہن سازی کرنا چاہ رہی ہے۔
اُن کے بقول اس تقریب میں آرمی چیف نے ٹاؤن ہال کے انداز میں سوالات کے جواب دیے، جب ان سے سیاسی سوال ہوئے تو انہوں نے اس کے بھی جواب دیے۔
ایک طالبہ نے سوال کیا کہ حکومت کو پانچ سال پورے کیوں نہیں کرنے دیے جاتے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی حکومت ملک توڑنے کے درپے ہو تو کیا پھر بھی اسے حکومت کرنے دی جائے؟
آرمی چیف نے کہا کہ عدم اعتماد ایک آئینی حل ہے، اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس 172 ارکان اسمبلی ہوں تو وہ حکومت کرے۔ لیکن اگر نہ ہوں تو اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہیے۔ لیکن اس پر پورے ملک میں سڑکوں پر آ کر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا درست نہیں۔
ثمر عباس کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا پر کوئی کسی کو نہیں پوچھ رہا۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بیرون ملک اگر کوئی کسی کے خلاف بات کرے تو وہ جواب دہ ہوتا ہے۔
اس دوران ایک نوجوان نے وہاں موجود نگراں وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ سے سوال کیا کہ آپ تو 90 دن کے لیے آئے تھے آپ چھ ماہ سے کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس پر نگراں وزیرِاعظم کے بجائے آرمی چیف نے جواب دیا اور کہا کہ “یہ سوشل میڈیا کی طرف سے آپ کو بتایا گیا ہے۔ لیکن سچ آپ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر مردم شماری ہو تو اس کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونا ہوتی ہیں اور یہ آئینی سوال ہے۔”
ثمر عباس نے کہا کہ اُنہیں لگتا ہے کہ آرمی چیف نے جس انداز میں سوالات کے جواب دیے اس سے وہ نوجوانوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے اور بیشتر نوجوان جن سے ہماری بات ہوئی وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کے ذہن میں جو سوالات تھے ان کے مکمل جواب دیے گئے ہیں۔
اُن کے بقول بعض نوجوان مکمل مطمئن نہیں تھے اور جس طالبہ نے سیاسی عدم استحکام سے متعلق سوال کیا تھا اس نے بعد میں بعض صحافیوں سے آ کر سوال کیا کہ کیا میرا سوال غلط تھا؟ کیا مجھے نہیں پوچھنا چاہیے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کیوں ہے؟
غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ “تقریب میں ڈھائی ہزار کے قریب نوجوان موجود تھے اور وہاں کوئی 20 کے قریب سوالات کے جواب دیے گئے، ہر کوئی وہاں سوال کرنا چاہتا تھا۔ نوجوانوں کے تمام مسائل پر بات تو نہ ہو سکی لیکن میرے خیال میں برف پگھلی ہے۔”
اُن کے بقول فوج اور نوجوان ایک دوسرے کے سامنے آئے اور کھل کر انہوں نے بات کی اور بات سنی۔ اس سے نوجوانوں کے اندر اعتماد بھی پیدا ہوا کہ ریاست ان کی بات سن رہی ہے۔ اس تقریب میں بچوں نے بہت تہذیب کے ساتھ بات چیت کی۔
غریدہ فاروقی کے بقول ایک بچے نے جب سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ سیاست دان اچھے برے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے ادارے کے اندر بھی اچھے برے لوگ ہوں گے۔ اس سوال پر آرمی چیف نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ بالکل صرف سیاست نہیں، ہر ادارے میں اچھے برے لوگ موجود ہیں۔
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس وقت ریاست کو بیانیے کی جنگ کا سامنا ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانیہ پروان چڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب فوج نے خود فیصلہ کیا ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیجیٹل میڈیا پر نوجوانوں کا قبضہ ہے۔ یہ پاکستان کے اندر بھی ہے اور باہر بھی ہے۔ آرمی چیف کس نوجوانوں کے ساتھ بات چیت اسی مقصد کے لیے ہے۔
اُن کے بقول اس میں ایک خطرناک بات یہ ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ صرف ریاست کے بیانیے کو ہی سچ سمجھا جائے۔ وہ خاصا مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ ریاست کے مقابل جو سوچ ہے اسے اگر جگہ نہیں دی جائے گی تو یہ کشمکش یونہی جاری رہے گی۔
سلمان عابد کے بقول دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کا نکتۂ نظر بھی کہاں بنتا ہے کون بناتا ہے اس پر بھی بات ہو گی۔
اُن کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ نوجوان ریاست مخالف ہو گئے ہیں اور ملک کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ کوئی ریاستی نظام ان مسائل پر توجہ نہیں دے رہا جس کی وجہ سے یہ غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اپنا ردِعمل دے رہے ہیں۔