Saturday, December 28, 2024
ہومPakistan'آپریشن عزم استحکام'؛ کیا پاکستان میں ایک اور فوجی آپریشن ناگزیر ہے؟

‘آپریشن عزم استحکام’؛ کیا پاکستان میں ایک اور فوجی آپریشن ناگزیر ہے؟


  • پاکستان کی حکومت نے ہفتے کو ‘آپریشن عزم استحکام’ کے نام سے نئے فوجی آپریشن کی منظوری دی ہے۔
  • پاکستان تحریکِ انصاف سمیت حزبِ اختلاف کی بعض جماعتیں اس مجوزہ آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں۔
  • آپریشن کی نوعیت کے بارے میں حکومت نے وضاحت جاری نہیں کی ہے: سابق سربراہ فاٹا ریسرچ سینٹر ڈاکٹر اشرف علی
  • آپریشن کا بظاہر مقصد گزشتہ تین برسوں کے دوران قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو ختم کرنا ہے: تجزیہ کار عبدالسید

اسلام آباد — پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ‘عزم استحکام’ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کرنے کے اعلان پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے۔

بعض حلقے اس اعلان کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کرتے ہوئے معاملے کو پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ہفتے کو وزیرِ اعظم پاکستان کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی مہم تیز کرنے کے لیے ‘عزم استحکام’ آپریشن کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی اور دیگر اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔

آپریشن کی منظوری دینے والی اپیکس کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کو افغانستان سے متصل مغربی سرحد پر آئے روز مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو سیکیورٹی کی صورتِ حال 2009-2008 کے مقابلے میں کافی تسلی بخش ہے تاہم آپریشن کا فیصلہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

‘حکومت نے واضح نہیں کیا کہ آپریشن کی نوعیت کیا ہو گی’

فاٹا ریسرچ سینٹر کے سابق سربراہ اور سیکیورٹی اُمور کے ماہر ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں کہ تاحال آپریشن کی نوعیت کے بارے میں حکومت نے وضاحت جاری نہیں کی ہے۔

ان کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تھوڑی جلد بازی کا سہارا لیا ہے اور اس اعلان کے تحت حکومت ایک ماحول بنانے کا سوچ رہی ہو کہ لوگوں کا ممکنہ ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر اشرف علی کے مطابق اگر ماضی کی بات کی جائے تو شدت پسند منظم طریقے سے علاقوں میں وجود رکھتے تھے جس کے خلاف آپریشن نسبتاً آسان ہوتا تھا۔

سن 2014 میں آپریشن ‘ضربِ عضب’ کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی کا کہنا تھا کہ اس وقت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیمیں شمالی وزیرستان میں منظم تھیں اور وہاں عملاً حکومتی رٹ نہیں تھی۔

اُن کے بقول شمالی وزیرستان میں آبادی کے انخلا کے بعد بھرپور فوجی آپریشن کیا گیا جس کے بعد علاقے کو بڑی حد تک شدت پسندوں سے خالی کرا لیا گیا۔

‘ہر قبائلی ضلعے کی صورتِ حال مختلف ہے’

ڈاکٹر اشرف علی کے بقول اس وقت صورتِ حال مختلف ہے۔ شدت پسندوں کا کسی ایک علاقے میں وجود نہیں ہے۔ لہذٰا ایسے میں آبادی کا انخلا ایک مشکل ٹاسک ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں بھی صورتِ حال مختلف ہے۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ باجوڑ اور مہمند میں بھتہ خوری عروج پر ہے۔ لیکن وسطی علاقوں بشمول خیبر، کرم اور اورکزئی میں صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔

ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز گزشتہ دو برس سے انٹیلی جینس کی بنیاد پر آپریشنز کر رہی ہیں اور اس دوران ایسے سینکڑوں آپریشنز کیے گئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے افغانستان کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران اقوامِ متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقبل مندوب منیر اکرم نے شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کو پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ شدت پسند گروہ نے پاکستان کے اندر 98 کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی جس میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔

‘آپریشن کا مقصد ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنا ہے’

شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم سینئر تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ آپریشن کا بظاہر مقصد گزشتہ تین برسوں کے دوران قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو ختم کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی خیبر، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں حکمتِ عملی کے ساتھ حملے کر رہی ہے۔ تاکہ ان علاقوں میں دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ لہذٰا اسے روکنے کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی درکار ہے۔

عبدالسید کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے آپریشن کر چکی ہے۔ یہ آپریشن اس وقت کیے گئے تھے جب امریکی فوج افغانستان میں موجود تھی اور ایک طرح سے پاکستان کو امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی۔

اُن کے بقول اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل کے دوران کیا پاکستان تنِ تنہا کسی بڑے فوجی آپریشن کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں آپریشنز کے باوجود عسکریت پسندوں کی مزید طاقت ور ہو کر واپسی سے عوام اور سیاسی حلقے بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جیسے ہی حکومت نے مجوزہ آپریشن کا اعلان کیا ہے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس معاملے کو پارلیمان میں لانے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہا ہے کہ فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لہذٰا اس معاملے کو پہلے پارلیمان میں لایا جانا چاہیے۔

ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشن

خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی معاملات کو قریب سے دیکھنے والے صحافی لحاظ علی کے مطابق صوبے اور قبائلی اضلاع میں اب تک 21 فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں۔ اس دوران شدت پسندوں کے ساتھ جنگ بندی کے آٹھ معاہدے ہوئے۔ تاہم ان امن معاہدوں کے خاتمے کے ساتھ شدت پسند تنظیمیں مزید طاقت ور بن کر سامنے آئیں۔

لحاظ علی کے بقول شدت پسند تنظیموں کے خلاف کیے جانے والے تقریباً ہر فوجی آپریشن کو عوامی حمایت حاصل تھی جس کی سب سے کامیاب مثال 2009 میں ہونے والے ‘سوات آپریشن’ کی ہے۔

ان کے مطابق اس وقت بدقسمتی یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں فوج اور حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے جس کا عملی مظاہرہ نہ صرف صوبائی اور قومی نمائندگان نے اسمبلی کے فلور پر کیا بلکہ جلسوں اور ریلیوں کے دوران بھی کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول پہلے افغان سرحد سے متصل علاقوں کو قبائلی علاقاجات تصور کیا جاتا تھا جو کہ وفاق کی نگرانی میں آتے تھے۔ اب وہ تمام علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں اور اس لحاظ سے ان علاقوں کی انتظامی حیثیت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لوگ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں وہ نہیں سمجھتے کہ موجودہ صورتِ حال میں فوجی آپریشن کے کوئی خاطر خوا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز کو سیکیورٹی ادارے اور اس وقت کی حکومتیں کامیاب قرار دیتی رہی ہیں۔

سیکیورٹی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ان فوجی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا گیا اور کئی علاقوں کو شدت پسندوں کے اثر و نفوذ سے آزاد کرایا گیا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں