وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے سیاسی عزائم نہیں، چند دنوں میں طریقہ کار واضح ہو جائے گا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ تین جماعتیں ووٹ بینک محفوظ رکھنے کے لیے آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں، ووٹ بینک کے لیے نہیں ملک کے لیے اسٹینڈ لیں۔
خواجہ آصف نے پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی تشویش ضرور دور کریں گے، آپریشن پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کے سیاسی عزائم نہیں، مقصد دہشت گردی کی لہر ختم کرنا ہے، آپریشن کا فوکس بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہو گا۔
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایپکس کمیٹی میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا، صوبوں کو مالی مدد کرنا ہو گی، عدلیہ نے قومی سلامتی کی کوشش میں سپورٹ نہ کیا تو آپریشن مؤثر نہیں رہے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں بسائے گئے شدت پسندوں کے گھر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں، دہشت گردوں کی واپسی تباہی لے کر آئی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے کہا تھا وزیرِ اعظم کے کہنے پر قدم اٹھا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوئے، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جائے گا، اے پی ایس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اس وقت اور آج کل صورتِ حال میں بہت فرق ہے، فاٹا کے علاقوں میں دہشت گردوں کا قبضہ ہوچکا تھا، فاٹا کے علاقے نوگو ایریاز بن چکے تھے، آج ایسی صورتحال نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان میں بی ایل اے رات کے وقت کارروائی کرتے ہیں، سوات میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی تھی، آپریشن عزم استحکام پر آج کابینہ میں بحث ہوگی، اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کو بحث کا وقت دیا جائے گا، سوالات اور تشویش کا خاطر خواہ جواب دیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ پانچ چھ ہزار دہشت گروں اور طالبان کو یہاں بسایا گیا، طالبان کے مشہور لیڈروں کو معافی بھی دی گئی، اس اقدام سے تباہی آئی، امن نہیں آیا، امن پارہ پارہ ہوا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کی جائے گی، بیورو کریسی اور میڈیا کی حمایت کی بھی اشد ضرورت ہوگی، پچھلے آپریشن میں نقل مکانی ہوئی تھی، یہ آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ ہوں گے، ہم نے دونوں جنگیں امریکی تحفظات کے لیے لڑیں، ردالفساد اور ضرب عضب کے بعد امن قائم ہوا تھا، طالبان کو دوبارہ لانے اور بسانے کے بعد یہ لہر آئی ہے۔