|
اسلام آباد — “یہ ایک بھارت کا وٹس ایپ گروپ تھا جس میں مذہبی معاملات پر بات ہوتی تھی، مدعی بھی اس گروپ کا ممبر تھا اور پھر اس معاملے میں ملزمہ کو ملوث کر دیا گیا اور اب انہیں سزا سنا دی گئی ہے۔”
یہ کہنا ہے توہینِ مذہب کے الزام میں موت کی سزا پانے والی ملزمہ (سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) کے وکیل رانا عبدالحمید کا جنہوں نے ملزمہ کا کیس لڑا، لیکن اُنہیں سزا سے نہ بچا سکے۔
کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کرنے والی مسیحی خاتون کو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج نے سزا سنائی ہے۔
‘سینٹر فار سوشل جسٹس’ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر 556 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں جیلوں میں قید ہیں جن میں 22 خواتین ہیں۔ ان میں سے چند کو سزا سنائی گئی ہے جب کہ بیش تر کے خلاف کیسز مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
ماضی میں توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ہونے والی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کردیا تھا جس کے بعد وہ پاکستان سے چلی گئی تھیں اور اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں۔
جیلوں میں قید 22 خواتین میں سے 16 مسلمان جب کہ چھ مسیحی خواتین زیرِ حراست ہیں۔
‘توہینِ مذہب کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے’
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور مذہبی جنونیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے توہینِ مذہب کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس بارے میں حکومت یا عدلیہ بالکل بے بس نظر آ رہی ہیں۔
وکیل رانا عبدالحمید کا کہنا تھا کہ ملزمہ کو 2020 میں ایک وٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا جو کہ مبینہ طور پر بھارت سے چلایا جا رہا تھا۔
اُن کے بقول بعد میں ملزمہ کو اس گروپ کا ایڈمن بھی بنا دیا گیا۔ اس گروپ میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے اور مذہبی معاملات پر بھی بحث ہوتی تھی۔ اس گروپ میں آزاد لوگ تھے اور بحث کیا کرتے تھے۔
کیس کے مدعی نے اس گروپ میں شئیر ہونے والی چیزوں کو لے کر وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) میں رپورٹ کیا اور اب عدالت نے ملزمہ کو سزائے موت سنا دی ہے۔
ملزمہ کے چار بچے ہیں، وائس آف امریکہ نے اُن کے اہلِ خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
‘توہینِ مذہب کے زیادہ تر کیسز میں وجہ کچھ اور ہوتی ہے’
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں دقیانوسی خیالات اور مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں وہ گروہ جو معاشرتی طور پر کمزور ہیں، بالخصوص خواتین اس کا نشانہ بن رہی ہیں۔
فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ گورننس کمزور ہونے کی وجہ سے معاشرے میں موجود ایسے گروپ مزید مضبوط ہو رہے ہیں جو اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ریاستی ادارے اس میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے اور عدلیہ بھی ایسے کیسز کے فیصلے کرنے سے گھبراتی ہے۔
فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے زیادہ تر کیسز کے پیچھے وجوہات کچھ اور ہوتی ہیں۔ گوجرہ یا کچھ اور مقامات پر زمینوں کے حصول کے لیے غلط الزامات لگائے گئے۔ الزام توہینِ مذہب کا تھا۔ لیکن اصل معاملہ کچھ اور تھا اور اس قانون کو غلط انداز میں استعمال کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ توہینِ مذہب کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود ہیں اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حکام کے مطابق حالیہ عرصے میں توہینِ مذہب کے غلط الزامات لگانے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
ملزمہ کے کیس میں وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وٹس ایپ گروپ میں جو مواد شئیر کیا گیا اس کی رپورٹ کے بعد کیس کا اندراج ہوا جس کے بعد 2021 میں انہیں گرفتار کیا گیا اور تمام الیکٹرانک آلات کا مکمل فرانزک ہوا۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ گروپ میں جو وائس چیٹ شئیر کی گئی تھی اس کی وائس میچنگ کروائی گئی اور اس کے بعد ہی عدالت نے انہیں سزا سنائی۔
دو روز قبل میرپور خاص میں ایک ڈاکٹر کو توہین مذہب کے الزام میں مبینہ طور پر ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا جب کہ تدفین سے قبل مشتعل افراد کی جانب سے لاش کو جلانے کی رپورٹس بھی آئی تھیں۔
سندھ حکومت نے اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل کوئٹہ میں توہینِ مذہب کے زیرِ حراست ملزم کو مبینہ طور پر پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل ‘فیکٹ فوکس’ نامی ویب سائٹ کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان میں وکلا کا ایک گروہ موجود ہے جو توہینِ مذہب کے کیسز بنا کر لوگوں کو سزائیں دلوانے میں سرگرم ہے۔ تاہم وکلا کے اس گروپ نے ان الزامات سے انکار کیا تھا۔