|
ویب ڈیسک — پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد جلسے کے بعد پولیس نے پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور پشاور پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے بیرسٹر گوہر سمیت رکنِ قومی اسمبلی شیر افضل مروت، زین قریشی، شیخ وقاص، ملک عامر ڈوگر سمیت کئی ارکان کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سے حراست میں لے لیا ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اسلام آباد سے پشاور پہنچ گئے ہیں۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ کو اسلام آباد سے حراست میں لے لیا ہے۔ تاہم منگل کی صبح وزیرِ اعلیٰ کے پریس سیکریٹری نے علی امین گنڈاپور کے پشاور پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس کے مطابق حالیہ گرفتاریاں آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کے اجازت نامے اور قانون کی خلاف وزری پر عمل میں لائی گئی ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف تھانہ سنگجانی اور تھانہ نون میں ‘اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر 2024’ کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔ مقدمات میں کارِ سرکار میں مداخلت، توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات شامل ہیں۔
مقدمات میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، زرتاج گل، عامر مغل، شعیب شاہین، شیر افضل مروت کے علاوہ سیمابیہ طاہر اور راجہ بشارت سمیت 28 مقامی رہنما نامزد ہیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف جس قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں وہ قانون جلسے سے چند روز قبل ہی منظور ہوا تھا جس پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سات ستمبر کو یعنی جلسے سے ایک روز قبل ہی دستخط کیے تھے۔
اسلام آباد میں اجتماعات سے متعلق نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج گیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کیا ہے اور کہا کہ ملک میں عملی طور پر ایک جعلی عسکری حکومت کی سرپرستی میں آمریت نافذ ہے اور جمہوریت کو کچلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
فوری طور پر حکومت یا ریاستی اداروں کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔