“اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست کرے گی تو پھر سیاست سے جواب دیں گے، عام انتخابات میں دھاندلی کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ پی ٹی آئی والوں کے جسموں سے نہیں بلکہ ذہنوں سے مسئلہ ہے جو ٹھیک ہو جائے گا۔”
یہ وہ الفاظ ہیں جو انتخابی نتائج سے نالاں مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران کہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے سابقہ اتحادیوں سے رابطوں کے باوجود حکومت میں شامل ہونے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی نواز شریف کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی حزب اختلاف میں بیٹھیں۔
جے یو آئی کے سربراہ نے ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ لہذٰا اب فیصلے میدان میں ہوں گے۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی (ف) کو انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں ملی ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں صرف سات جب کہ بلوچستان اسمبلی میں 11 نشستیں ملی تھیں۔
گزشتہ دو برس سے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک چلانے والے مولانا کیا ایک بار پھر مزاحمتی سیاست کی طرف جا رہے ہیں؟
کیا مولانا کا ووٹر باہر نہیں نکلا؟ کیا مولانا فضل الرحمٰن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے دُور ہو رہے ہیں؟ کیا مولانا پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے بحال کرنا چاہتے ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جو عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔
‘مولانا پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کر رہے ہیں’
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت طویل دوستی رہی ہے۔ لہذٰا اتنی جلدی سائیڈ بدلنا ممکن نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب بھی ترپ کے پتے اتنے زیادہ ہیں کہ وہ مولانا کو راضی کر سکتے ہیں۔
اُن کے بقول مولانا محض پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان بھی واپس لے لیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مولانا نے اپنی پریس کانفرنس میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان تو کیا ہے۔ لیکن اُنہوں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ پارلیمان میں تعاون نہیں کریں گے یا وہ بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ یہ بہت مثبت بات ہے۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مرکز میں جو حکومت بننے جا رہی ہے اسے ‘پی ڈی ایم ٹو’ کہا جا رہا ہے۔ یہ وہ ساری جماعتیں ہیں جن کے ساتھ مولانا کی قربتیں رہی ہیں، لہذٰا یہ بہت مشکل ہو گا کہ مولانا ان کے خلاف جائیں۔
‘مولانا کچھ نہ کچھ تو کریں گے’
تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ مولانا خاموشی سے پارلیمان میں بیٹھ جائیں گے۔
اُن کے بقول مولانا نے اپنی پریس کانفرنس میں اسٹیبلشمنٹ سے گلہ کیا ہے اور الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ لہذٰا وہ کچھ نہ تو کچھ کریں گے۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ مولانا نے انتخابات میں پیسے چلنے کا بھی الزام عائد کیا ہے جب کہ یہ احسان بھی جتایا ہے کہ وہ افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔
اُن کے بقول جہاں تک اپوزیشن میں بیٹھنے کی بات ہے تو شاید مولانا اپنے فیصلے پر نظرِثانی کر لیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد بھی مولانا نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یہ تجویز دی تھی کہ اسمبلیوں میں نہ جائیں، لیکن دونوں جماعتوں نے مولانا کی بات نہیں مانی تھی۔
خیبرپختونخوا میں مولانا کا ووٹر آخر گیا کہاں؟
خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کرک، بنوں اور کچھ دیگر اضلاع کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم نہ صرف مولانا کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی آبائی نشست سے شکست ہوئی۔ بلکہ دیگر اضلاع میں بھی جے یو آئی (ف) خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
بعض حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ نوجوان ووٹرز نے خیبرپختونخوا میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور مولانا فضل الرحمٰن کے ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلے۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مولانا کو خیبرپختونخوا میں شکست کی وجہ گزشتہ دو برس سے اُن کی طرزِ سیاست ہے جس میں وہ مسلسل ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا رہے تھے۔
اُن کے بقول مولانا مسلسل ’یہودی لابی‘ کی گردان کر رہے تھے جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں پر تنقید سے گریزاں تھے۔ لہذٰا یہ چیزیں لوگوں نے بہت محسوس کی ہیں۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ نگراں حکومت میں بھی مولانا کی جماعت کے لوگ شامل تھے جب کہ اہم عہدوں پر بھی مولانا نے اپنے لوگوں کو لگوایا، لہذٰا اس کا ردِعمل الیکشن والے دن سامنے آیا۔
‘خیبرپختونخوا میں خاندانی سیاست ختم ہو رہی ہے’
تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں اب خاندانی سیاست کی بنیاد پر ووٹ دینے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نوجوان ووٹر اب باشعور ہے، اس کے پاس موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ لہذٰا وہ اپنے والدین کے کہنے پر اب ووٹ نہیں ڈالتا۔
اُن کے بقول اسی طرح عمران خان کے ساتھ انتخابات سے قبل جو کچھ ہوا اور جس نوعیت کے مقدمات میں اُنہیں سزائیں ہوئیں، اس کا ردِعمل بھی الیکشن والے دن دیکھنے میں آیا۔
طاہر خان کہتے ہیں 2018 کے انتخابات کے بعد مزید نواجون ووٹرز شامل ہوئے اور اس کا اثر بھی انتخابی نتائج پر پڑا۔
اُن کے بقول جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ایک دوسرے سے بہت دُور جا چکے ہیں۔ لہذٰا یہ نظر نہیں آ رہا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں، تاہم سیاست ناممکنات کا کھیل ہے۔
‘حکومت بنانے کا مینڈیٹ کسی کے پاس نہیں ہے’
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ نوجوان ووٹر نے خیبرپختونخوا میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلم غوری کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے وابستہ نوجوانوں کی بڑی تعداد مدرسوں میں زیرِ تعلیم ہے اور وہ بھی جدید ٹیکنالوجی سے آشنا ہیں۔
اُن کے بقول اب موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی پاکستان میں تقریباً ہر عمر کے فرد کو ہے۔ لہذٰا اسے کسی ایک پارٹی سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔
اسلم غوری کہتے ہیں کہ 2019 میں بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے شفاف انتخابات کے لیے دھرنا دیا تھا اور اب بھی جے یو آئی تمام آئینی راستے اختیار کرے گی۔
اسلم غوری کہتے ہیں کہ اس وقت حکومت بنانے کا مینڈیٹ کسی کے پاس نہیں ہے۔ ملک کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں، آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ لہذٰا ایسی لولی لنگڑی حکومت کے ساتھ کون بات کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مولانا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اُن کی تحریک دھاندلی کے خلاف ہے۔