کراچی(ویب ڈیسک) سی ٹی ڈی گارڈ ن کی جانب سےکاغذ بنانے والے تاجر کو مبینہ طور پر ایس ایس پی سی ٹی ڈی سید فدا حسین شاہ کا فرنٹ مین بننے سے انکار پر گھر سے اٹھا کر دو دن تک غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا گیا،تاجر نے ایس ایس پی سی ٹی ڈی سید فدا حسین شاہ سمیت واقعے میں ملوث اہلکاروں کو خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایس ایس پی فداحسین شاہ کا کہنا ہےکہ عباس اللہ نامی تاجر کےکالعدتنظیموں کے روابط ہیں ‘ان کے خلاف ٹیرر فنڈنگ کی اطلاعات ہیں جس پر انکوائری جاری ہے،انکوائری سے بچنے کیلئے اس طرح کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔
روزنامہ جنگ کے مطابق عباس اللہ نامی تاجر کی جانب سےآئی جی سندھ کو تحریری درخواست میں موقف اپنایا گیاہے کہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی سید فدا حسین شاہ نےانہیں بتایا ہےکہ انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے شخص کو بیچا ہے اور اسے زمین کی فروخت کی رقم جمع کرانے کے لیے کسی دوسرے شخص کا بینک اکاؤنٹ حاصل کرنے میں میری مدد کی ضرورت ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ فدا حسین شاہ نے بتایا کہ انہیں ایک بزنس مین کا اکاؤنٹ درکار ہے جس میں وہ جمع کرائی گئی رقم حاصل کر سکے، اس نے مجھ سے کہا کہ میں اسے اپنا اکاؤنٹ نمبر دوں تاکہ وہ میرے اکاؤنٹ میں جمع رقم حاصل کر سکے اور پھر مجھے رقم کیش ہو جائے،میں نے انہیں اپنا اکاؤنٹ نمبردینے سے انکارکردیا تو انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیناشروع کردیں ‘اس دوران 6 مارچ 2024 کو 2 پولیس موبائلوں میں8سے 10 اہلکار میرے گھر آئے اور مجھے زبردستی گارڈن پولیس اسٹیشن لے آئے اور مجھے ایک پرائیوٹ سیل میں بند کرکےمیری آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں ۔
انہوں نے آئی جی سندھ سے ایس ایس پی سی ٹی ڈی گارڈن سید فدا حسین شاہ سمیت ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے، سینٹرل پولیس آفس کے ڈائریکٹر اطلاعات سید سعد علی نے موقف جاننے پر بتایاہےکہ آئی جی صاحب کو مذکورہ تاجر کی جانب سے تاحال کوئی تحریری درخواست موصول نہیں ہوئی ہے،ایس ایس پی سی ٹی ڈی گارڈن فدا حسین شاہ نے کہاہےکہ عباس اللہ سے متعلق سی ٹی ڈی کے پاس ٹیرر فنڈنگ کی اطلاعات تھی،اسے قانونی طریقے کار مکمل کر کے حراست لیا گیا تھا اور تفتیش کا سلسلہ جاری ہے، عباس اللہ کی حرکات انتہائی مشکوک ہیں،اس نے گزشتہ ماہ قبل تاجر افتخار کی فیکٹری پر دھاوا بولا تھا، عباس اللہ کے خلاف کورنگی تھانے میں تاجر افتخار کی مدعیت میں فیکٹری پر قبضے کا مقدمہ درج ہے ۔