امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں کے لیے مبینہ طور ایرانی ساختہ میزائل کے پرزے لے جانے والے جہاز کے کپتان اور عملے کے دیگر تین ارکان کو عدالت نے حراست میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔
حکام کے مطابق مقدمہ عدالت میں زیرِ التوا رہنے تک ملزمان حراست میں رہیں گے جن کے بارے میں ابتدائی معلومات کے مطابق دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق چاروں ملزمان پر یمن کے حوثی باغیوں کے لیے اسلحہ و دیگر ہتھیار اسمگل کرنے کی کوشش اور امریکی بحریہ کے افسران کے سامنے غلط بیانی کے الزامات ہیں۔
معتبر ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام اس معاملے سے آگاہ ہیں اور امریکی حکام سے رابطے میں بھی ہیں۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان نے امریکی حکام سے چاروں ملزمان کے لیے قونصلر رسائی کی درخواست کر رکھی ہے جب کہ حکام چاروں افراد کی شناخت کی تصدیق کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا وہ پاکستانی شہری ہیں یا نہیں۔
امریکی بحریہ نے 11 جنوری کو بحیرۂ احمر میں کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو حراست میں لیا تھا جب کہ جہاز کو روکنے کی کوشش کے دوران دو امریکی نیوی سیلرز سمندر میں ڈوب گئے تھے۔
ملزمان پر الزام ہے کہ وہ ایرانی ساختہ جدید ہتھیار حوثی باغیوں کو اسمگل کر رہے تھے اور انہیں ایسے موقع پر حراست میں لیا گیا تھا جب بحیرۂ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی اور فوجی جہازوں پر حوثیوں کے مسلسل حملے جاری تھے۔
امریکی ریاست ورجینیا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں منگل کو سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ایجنٹ لارین لی نے ملزمان کے خلاف گواہی دی۔
لارین نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ ملزمان کے جہاز کی تلاشی کے دوران ایرانی ساختہ جدید ہتھیار برآمد ہوئے ہیں جن میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل، اینٹی شپ کروز میزائل کے اہم پرزے، ایک وار ہیڈ اور دیگر پرزے شامل ہیں۔
ایف بی آئی کے ایجنٹ نے مزید کہا کہ کشتی سے برآمد ہونے والی اشیا حوثی باغیوں کی طرف سے تجارتی جہازوں اور امریکہ کے بحری جہازوں پر ہونے والے حالیہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے ملتے جلتے ہیں۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق وفاقی استغاثہ نے کہا ہے کہ جب امریکی بحریہ کے اہلکاروں نے ملزمان کی کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کی تو اس کے کپتان محمد پہلوان نے اس کی رفتار کو کم کرنے سے انکار کر دیا اور کشتی کے عملے سے کہا کہ فوجیوں کے اس پر سوار ہونے سے پہلے کشتی میں لدے سامان کو آگ لگا دیں۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق کشتی کے کپتان محمد پہلوان نے کشتی کے عملے کو ہدایت کی کہ وہ اس کشتی کو نا روکیں لیکن جہاز کے عملے کے ایک دوسرے رکن نے کشتی کے انجن کو بند کر دیا۔
ایف بی آئی ایجنٹ نے اپنی گواہی میں کہا کہ پہلوان نے ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران کہا تھا کہ وہ کشتی کا انجینئر ہے اور کشتی پر لدے سامان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ لیکن بعد میں اپنے دعوے کے برعکس اس نے کہا کہ وہ جہاز کا کپتان ہے۔
معاون امریکی اٹارنی ٹرائے ایڈورڈز جونیئر نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلوان کو اس وقت تک حراست میں رکھا جائے جب تک مقدمہ کی سماعت زیر التوا رہتی ہے کیوں کہ وہ ناصرف کمیونٹی کے لیے خطرہ ہے بلکہ وہ فرار بھی ہوسکتا ہے۔
ایڈورڈز نے کہا کہ پہلوان کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے خلاف سب سے زیادہ سنگین الزام یہ ہے کہ وہ ارادی طور پر ایسا وارہیڈ ٹرانسپورٹ کر رہا تھا جو حوثی باغی استعمال کریں گے۔ امریکی قانون کے مطابق یہ ایک دہشت گردی کا جرم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 20 سال قید ہو سکتی ہے جب کہ غلط بیانی پر پانچ سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
پہلوان کے اٹارنی ایمی آسٹن کا کہنا تھا کہ جب امریکی عہدیدار کشتی کے عملے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو شاید پہلوان نے اپنی زبان پنجابی میں بات نا کی ہو۔
ایف بی آئی ایجنٹ کا کہنا تھا کہ وہ یہ تو نہیں جانتی کہ مترجم نے کون سی زبان میں بات کی لیکن پہلوان نے ان تمام سوالوں کا جواب دیا جو ان سے انٹرویو کے دوران پوچھے گئے تھے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق کپتان کے علاوہ زیرِ حراست دیگر تین ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے جہاز کے کپتان کی شناخت اور جہاز کی ایران سے روانگی کے بارے میں جھوٹ بولا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے پاکستان سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ لیکن ملزمان کے وکلا نے کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکار کیا ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔