Wednesday, December 25, 2024
ہومPakistanانتخابات 2024 کے نتائج: اسٹیک ہولڈرز کے لیے حیران کن

انتخابات 2024 کے نتائج: اسٹیک ہولڈرز کے لیے حیران کن



پاکستان کے عام انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جس کے بعد کم نشستیں حاصل کرنے والی پارٹیاں مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں جب کہ سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت نتائج کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے باعث حیرت ہیں۔

8 فروری کے انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق 266 نشستوں کے ایوان زیریں میں 70 سیٹیں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ جنہیں ملانے کے بعد حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت یا اتحاد کو 169 نشستیں درکار ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 93 نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان برقرار رکھنے کی قانونی جنگ ہار گئی تھی اور اس کے کارکنوں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑا۔

تین بار سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (نواز) 75 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

عمران خان کی جانب سے مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد سے انکار کے بعد یہ تینوں جماعتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

انتخابات کے اہم پہلو

انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ آئیے پاکستان کے 12 ویں عام انتخابات کے اہم پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔

جمہوریت پر یقین

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح تقریباً 48 فیصد تھی اور، چھ کروڑ سے زیادہ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ تعداد اس سے قبل کے عام انتخابات کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔

انتخابات کے انعقاد میں تاخیر، انتخابی مہم کے سست آغاز، عمران خان کی پارٹی کے خلاف فوج کی ممکنہ ایما پر کریک ڈاؤن اور انتخابی عمل پر اعتماد میں کمی نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا کہ آیا ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹروں کی ایک معقول تعداد اپنے گھروں سے باہر نکلے گی بھی یا نہیں۔

سابق سفارت کار ملیحہ لودھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان پیش گوئیوں کے برعکس کہ سیاسی صورت حال کی وجہ سے لوگ انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے، ووٹروں کی کافی تعداد سامنے آئی، جس سے جمہوری عمل پر اور اپنے ووٹ کی اہمیت پر ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین نے اسے جبر کے خلاف جمہوریت کے لیے ووٹ قرار دیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ووٹر ناراض تھے اور وہ تبدیلی دیکھنا چاہتے تھے۔

دھاندلی کے الزامات

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس برہمی کا رخ بنیادی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف تھا، جس کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی تاریخ ہے۔نواز شریف اور عمران خان دونوں اعلیٰ فوجی حکام پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے انہیں زبردستی اپنے عہدوں سے ہٹایا۔

لاہور کے سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ ملا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک پیغام ہے کہ ان کی پالیسیاں عام آدمی کی سطح پر قابل قبول نہیں ہیں۔

تاہم حسن رضوی اور زاہد حسین دونوں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم نہیں ہو گی۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کچھ مختلف سیکھنے کی صلاحیت ہے۔

انتخابات کے نتائج تقریباً 15 گھنٹوں کی تاخیر سے آنا شروع ہوئے جس پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات شروع ہو گئے۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک بیان میں سب سے اپیل کی ہے کہ وہ انتشار اور پولرائزیشن کی سیاست سے باہر نکلیں۔

نواز شریف کا سیاسی مستقبل

انتخابات سے قبل نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ انہوں نے دو انتخابی حلقوں سے الیکشن لڑا جس میں ایک سیٹ پر وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سے ہار گئے جب کہ لاہور کی اپنی آبائی نشست انہوں نے جیت لی جہاں ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی ایک مضبوط امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد سے تھا۔ ان کی جیت کو پی ٹی آئی نے متنازعہ قرار دیا ہے۔

نواز شریف نے مرکز میں مخلوط حکومت کی قیادت کرنے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم اور اپنی بیٹی مریم نواز کو سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے۔

74 سالہ نواز شریف اپنی پارٹی کی جانب سے آئندہ کے حکومتی سیٹ اپ میں کردار نہ ہونے کا مطلب سیاسی کیرئیر کے خاتمے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ سازی کے عمل کی قیادت کریں گے۔

لیکن تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ انتخابی نتائج سے نواز شریف کو نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا سیاسی کیریئر ختم نہ ہوا ہو، لیکن ان کی میراث زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی۔ ان کی پارٹی مکمل طور پر فوجی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔

زاہد حسین نے مزید کہا کہ اس الیکشن نے شریف کی پارٹی کو، جو مکمل طور پر شریف خاندان کے گرد گھومتی ہے، زوال کی راہ پر ڈال دیا ہے۔

عمران خان کے لیے سبق

2022 میں عدم اعتماد کی تحریک میں شکست کے بعد، عمران خان کی پارٹی نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے بجائے پارلیمنٹ چھوڑ دی۔ اور سڑکوں پر احتجاج کرنے لگی جسے عوامی حمایت نو حاصل ہو گئی، لیکن وہ قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے میں ناکام رہی ۔تاہم اس دوران طاقتور فوج کے ساتھ اس کی رسہ کشی بڑھتی چلی گئی۔

ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے جو سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے واک آؤٹ نہ کریں۔ جو کہ ایک اچھی بات ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے پی ٹی آئی نے ماضی میں جو انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہے اس میں اعتدال آنا شروع ہو جائے۔

ملیحہ لودھی کا یہ بھی خیال تھا کہ خان کی پارٹی کے لیے پارلیمنٹ میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا دھچکا نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہوں، اور وہ جمہوری عمل کے حصے کے طور پر کام کے لیے تیار ہوں ، تو میرا خیا ل ہے کہ اس پارٹی کو مرکزی دھارے کی سیاست میں واپس آنے میں مدد مل سکتی ہے۔

استحکام آتا دکھائی نہیں دیتا

پاکستان بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی اور کئی دیگر جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ چوری ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی عبوری حکومت نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی عمل ایک خودمختار ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ موسم اور سیکیورٹی کے مسائل کے باعث ووٹوں کی گنتی میں تاخیر ہوئی۔

اسلام آباد کے ایک مبصر گروپ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک یا فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بہت سے انتخابی اہل کار قواعد پر عمل کرنے یا بروقت نتائج جمع کرنے کے لیے ضروری انتظامات کرنے میں ناکام رہے۔

انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کے واقعات میں ایک درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

نومنتخب پارلیمنٹ آئندہ دو ہفتوں میں حلف اٹھائے گی۔ جس کے بعد ایوان اپنے لیڈر کا انتخاب کرے گا، جو وزیر اعظم کے طور پر کام کرے گا۔

ملیحہ لودھی اور زاہد حسین دونوں کو خدشہ ہے کہ الیکشن میں دوسرے درجے پر رہنے والی جماعتوں کا اتحاد ملک میں شاید وہ سیاسی استحکام نہیں لا سکے گا جو 24 کروڑ کی آبادی پر مشتمل اس قوم کو اپنے گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے درکار ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود ایک ایسی اقلیتی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی جس کے پاس قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہ ہو۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں