|
پاکستان کی فوج نے پیر کو انکشاف کیا کہ ملک میں روزانہ لاکھوں لٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جا رہا ہے، لیکن اس نے ان دیرینہ الزامات کو مسترد کر دیا کہ فوج کا بھی اس غیر قانونی تجارت میں کوئی عمل دخل ہے۔
فوج کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ تیل کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ ملک کی 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے “مسلسل کوششیں” کی جا رہی ہیں۔
شریف چوہدری نے کہا کہ “اگر آپ اعداد و شمارکو دیکھیں تو فوج، فرنٹیئر کور، نفاذ قانون اور انٹیلیجینس اداروں کی مشترکہ کوششوں کی بدولت (ایندھن کی سمگلنگ) ڈیڑھ کروڑ لٹر سے لے کرایک کروڑ ساٹھ لاکھ لٹر یومیہ سے کم ہو کر پچاس سے ساٹھ لاکھ لٹر یومیہ پر آ گئی ہے ۔”
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن شریف چوہدری وہ پہلے پاکستانی عہدے دار ہیں جنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تیل کی بڑے پیمانے پر جاری غیر قانونی تجارت کے بارے میں عوامی سطح پر تخمینے شیئر کیے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے اہلکاروں نے پیر کے ان انکشافات کے بارے میں وی او اے کے سوالات کے فوری طورکوئی جواب نہیں دئے ۔
اسمگلنگ کے پاکستانی خزانے کے لیے نقصان
طویل عرصے سے جاری اس غیر قانونی تجارت کے بارے میں پاکستان کی دو سرکاری جاسوسی اداروں کی تیار کردہ ایک غیر معمولی جامع تحقیقاتی رپورٹ میں ،جو گزشتہ مئی میں مقامی میڈیا کو لیک ہوئی تھی، انکشاف کیا گیاتھا کہ ایرانی تاجر سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی مالیت کا پیٹرو ل اور ڈیز ل پاکستان ا سمگل کرتے ہیں۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ ایندھن کی غیر قانونی سپلائی پاکستان کی سالانہ کھپت کا تقریباً 14 فیصد ہے، جس کے نتیجے میں “خزانے کو” کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ میں تیل کے 200 سے زائد اسمگلروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اور سیکورٹی اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو تیل کی منافع بخش غیر قانونی تجارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2,000 گاڑیاں، جن میں سے ہر ایک 3,200 سے لے کر 3,400 لٹر تک تیل لے جا سکتی ہیں ، روزانہ سرحد پار سے ڈیزل کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ،تقریباً 1,300 کشتیوں کو بھی ایرانی تیل اسمگل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک میں تیل لے جانے کی گنجائش “1,600 سے 2,000” لٹر ہے، ۔
اسمگلنگ میں اضافہ کیوں؟
پیٹرولیم ڈیلرز نے سرحد پار سے اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ ایرانی تیل کے شعبے پر امریکی قیادت کی مغربی پابندیوں کو قرار دیا،جن کے نتیجے میں تہران اپنی برآمدات کے لیے متبادل منڈیوں کی تلاش پر مجبور ہوا۔
ایرانی تاجر مبینہ طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان میں خریداروں کو مقامی کرنسی میں ایندھن فروخت کرتے ہیں اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر وصول کرتے ہیں۔ پھر اس غیر قانونی تیل کو ملک میں دوسرے مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد اپنا ایندھن بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ سے حاصل کرتا ہے۔ حکومت نےبین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے تقریباً سات ارب ڈالر کا نیا قرضہ حاصل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قیمتوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث نقدی کی کمی کا شکار پاکستان ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایرانی تیل کو ملک میں اسمگل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔
شریف چوہدری نے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ متبادل ذریعہ معاش کے مواقع فراہم کیے بغیر طویل عرصے سے جاری تیل کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ایران کے ساتھ سرحد بند کرنے سے غربت زدہ اور پسماندہ پاکستانی سرحدی شہروں کے لیے تباہ کن نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔
مئی میں شائع ہونے والی انٹیلیجینس کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ شورش زدہ بلوچستان میں لگ بھگ 24 لاکھ افراد اپنی گزر بسر کے لیے ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر انحصار کرتے ہیں اور اگر یہ غیر قانونی تجارت بند ہو جاتی ہے تو ان کے پاس اپنی بقا کے وسائل ختم ہو جائیں گے ۔
افغان سرحد
اسی دوران فوج کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پڑوسی ملک افغانستان کے طالبان حکمرانوں پر تنقید کی کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل سرحد کے اپنی جانب کے حصے کی مؤثر طریقے سے حفاظت نہیں کر رہے۔
ترجمان نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے 1,450 سے زیادہ سرحدی چوکیاں قائم کی ہیں جبکہ افغان فریق کے پاس صرف 200 سے زیادہ سرحدی چوکیاں ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ طالبان کی چوکیوں کی محدود تعداد سرحدی گزرگاہوں پر عملے کی تعیناتی کے حوالے سے بے توجہی یا وسائل کے فقدان کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔
فوج کے ترجمان نے کہا،کہ “دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ ان کی چوکیوں یا سرحدی محافظو ں کی تعداد خاصی کم تر ہے ۔ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب بھی غیر قانونی نقل و حرکت یا اسمگلنگ کی کوششیں ہوتی ہیں، یا لوگوں کو سرحد پار کرنے میں مدد کی جاتی ہے، تو عام طور پر افغان جانب سے گولیاں چلائی جاتی ہیں، یا ایسی سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لیے دوسرےحربے استعمال کیے جاتے ہیں۔”
پاکستان کا موقف ہے کہ تین سال قبل جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول دوباہ حاصل کیا ہے ، ریاست مخالف عسکریت پسندوں نے اپنی پناہ گاہیں افغانستان منتقل کر دی ہیں اور سرحد پار سے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے، جن میں سینکڑوں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستانی الزامات پر طالبان حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، تاہم وہ اس سے قبل انہیں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کر چکے ہیں، کہ دہشت گرد گروپ افغان سرزمین پر سرگرمیاں نہیں کرتے اور یہ کہ کسی کو بھی پڑوسی ملکوں کو دھمکیاں دینے کی اجازت نہیں ہے۔