پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایران کی فضائی کارروائی پر جس ردِعمل کا اظہار کیا وہ پورے خطے خاص طور پر بھارت کے لیے پیغام تھا۔
نگراں وزیرِ اعظم نے یہ بات نجی نیوز چینل ‘سما نیوز’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔
واضح رہے کہ رواں ماہ پاکستان اور ایران کے درمیان صورتِ حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب ایران نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسند گروہ جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے فضائی کارروائی پر ردِعمل کے طور پر ایران میں موجود عسکریت پسند گروپس بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔
ماضی میں پاکستان اور ایران کی مشترکہ سرحد پر عسکریت پسندوں کی آمد و رفت اور ایک دوسرے کے ملک میں ہونے والی کارروائیاں تہران اور اسلام آباد کے تعلقات کے لیے چیلنج رہی ہیں۔ ان کے ردِعمل میں بارڈر پر سیکیورٹی فورسز کی کارروائی بھی ہوتی رہی ہیں۔ لیکن رواں ماہ ہونے والا واقعے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب ایران اور پاکستان نے اپنے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ممالک نے رواں ہفتے اپنے سفیروں کو دوبارہ واپس بھیجنے کے بعد معمول کے تعلقات بحال کر لیے ہیں جب کہ ایران کے وزیرِ خارجہ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان نے ایران کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والی کارروائی کے ردعمل میں جو مظاہرہ کیا وہ صرف ایران کے لیے بلکہ تمام خطے کے لیے پیغام ہے کہ اس خطے میں پاکستان کے دوست اور دشمن موجود ہیں۔
انٹرویو کے دوران جب وزیرِاعظم سے پوچھا گیا کہ آپ نے خطے میں کس کو پیغام دیا ہے تو ان کا کہنا تھا ” بلاشبہ ہم نے بھارت کو پیغام دیا ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ کسی کی طرف سے کوئی ایسی کارروائی ہوتی ہے تو اس کے ردِعمل میں اسی طرح جواب دیا جائے گا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار قمر چیمہ سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان نے بھارت کو یہ پیغام کیوں دیا ہے کہ اگر وہ ایران جیسی کوئی کارروائی کرے تو پاکستان جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
اس پر قمر چیمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بحیرہ احمر اور اس خطے میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف ایران اور بھارت کی ایک پالیسی ہے اور اس معاملے میں ایران اور بھارت ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔
ان کے بقول اسی وجہ سے ایران کی پاکستان کے خلاف فضائی کارروائی سے قبل شاید ایران اور بھارت کے درمیان کوئی بات ہوئی ہو۔
لیکن بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ ان کے بقول ایران کی طرف سے عراق، شام اور پاکستان میں مبینہ طور پر ایران مخالف عناصر کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا تعلق ایران کے اندرونی حالات سے ہے۔
تجزیہ کار قمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بھارت رواں سال اپریل میں ہونے والے لوگ سبھا انتخابات سے قبل 2019 کی طرح پاکستان کے خلاف کوئی فالس فلیگ آپریشن کرسکتا ہے۔
قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے اسی خدشے کے پیشِ نظر بھارت کو پیغام دیا ہے کہ چاہے کوئی دوست ہو یا دشمن اگر ایران جیسی کارروائی کی گئی تو پاکستان جوابی کارروائی کرے گا۔
یاد رہے کہ فروری 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے حملے میں 40 سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان میں مبینہ طور پر موجود ایک عسکریت پسند تنظیم پر لگایا تھا۔ بھارت نے پاکستان کی حدود میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر کارروائی کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔ لیکن اپنی جوابی کارروائی میں ایک بھارتی طیارے کو گرا کر بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کو حراست میں لے لیا تھا جسے بعد ازاں رہا کردیا گیا تھا۔
تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ 2019 کی نسبت اب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سیاسی طوپر مضبو ط ہیں۔ بھارت اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ نریندر مودی دوبارہ ایسی کارروائی کر سکتے ہیں تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ بھارت میں جب بھی انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں تو پاکستان مخالف بیانیے کو انتخابی مہم میں ابھارا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارت ایک بار پھر پاکستان کے خلاف کوئی فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے ۔ پاکستان نے ایران کے خلاف جوابی کارروائی کر کے خطے میں بھارت اور افغانستان کو ایک پیغام دیا ہے کہ اگر ایران کی طرح انہوں نے ریڈ لائن کراس کی تو اسلام آباد ان کےخلاف جوابی کارروائی کر ے گا۔
بھارت کی طرف سے تاحال پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکٹر کے بیان پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن بھارت ماضی میں پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ بھارت میں دہشت گردی کی کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان اس الزام کو رد کرتا آیا ہے۔