Wednesday, December 25, 2024
ہومPakistanایس سی او اجلاس سے قبل دہشت گردی: ’کانفرنس کو سبوتاژ کرنے...

ایس سی او اجلاس سے قبل دہشت گردی: ’کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی‘


  • حکومتی عہدیداران کے مطابق کراچی میں چین کے شہریوں اور سوات سفارت کاروں پر حملے سے واضح ہے کہ ان کا مقصد ایس سی او اجلاس کو سبوتاژ کرنا تھا۔
  • حکام کے مطابق ایس سی او کانفرنس پاکستان کے معاشی مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔
  • ان کے بقول اس دوران کسی بھی حملے سے نہ صرف پاکستان کے سیکیورٹی نظام کو دھچکا لگ سکتا ہے بلکہ الاقوامی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
  • مبصرین کے مطابق ایس سی او جیسے عالمی نوعیت کی سرگرمی سے قبل ملک میں دہشت گردی کے کارروائیوں میں اضافے کے امکانات واضح تھے۔

پاکستان میں یوں تو گزشتہ کئی برس سے دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ لیکن حالیہ واقعات ایسے نازک وقت پر رونما ہو رہے ہیں جب دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین کے وزیرِ اعظم بھی 11 برس بعد پاکستان کے چار روزہ دورے پر اسلام آباد میں موجود ہیں۔

پیر کی صبح خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے پولیس لائنز پر حملہ کر کے تین اہلکاروں کو ہلاک کیا جب کہ حکام نے پانچ حملہ آوروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس سے قبل 10 اکتوبر کو بلوچستان کے شہر دکی میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں 21 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی بھی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔

سات اکتوبر کی شب سندھ کے شہر کراچی کے ایئر پورٹ کے قریب ایک گاڑی پر خود کش حملے میں دو چینی شہری مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

اس سے قبل 22 ستمبر کو خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں غیر ملکی سفارت کاروں کے ایک قافلے پر بم حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے۔

خیبر پختونخوا اوربلوچستان کے متعدد علاقوں میں دہشت گردی کے دیگر واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔

تخریبی کارروائیوں کے حوالے سے اسلام آباد میں قائم آزاد تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپس) کی جانب سے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس ستمبر میں ملک بھر میں دہشت گردی کے 45 واقعات میں 56 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک افراد میں 29 کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں کی ذمہ داری مختلف گروہوں نے قبول کی جن میں تحریکِ طالبان پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ اور دولتِ اسلامیہ (داعش) کی خراسان شاخ جیسی اسلامی شدت پسند تنظیمیں شامل تھیں۔ دوسری طرف بی ایل اے اور بلوچ لبریشن فرنٹ جیسی کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں بھی ان حملوں میں ملوث تھیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کو سبوتاژ کرنے کی سازش؟

حکومتی عہدیداران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افسران کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین بھی حالیہ حملوں کے اضافے کو ایس سی او کے اجلاس اور چین کے وزیرِ اعظم کے دورہٴ پاکستان سے جوڑتے ہیں۔

کراچی میں ایئر پورٹ کے باہر چین کے انجینئروں کی گاڑی پر حملے کی تحقیقات سے باخبر ایک حکومتی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس حملے کا براہِ راست تعلق اسلام آباد میں ہونے والے ایس سی او کے اجلاس سے ہے۔

اعلیٰ حکومتی اہلکار نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کراچی میں چین کے شہریوں کو نشانہ بنانے اور سوات میں غیر ملکی سفارت کاروں پر ناکام حملے کی ٹائمنگ پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کا مقصد ایس سی او اجلاس کو امن و امان کی ابتر صورتِ حال کا بہانہ بنا کر سبوتاژ کرنا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں واقعات کا اصل مقصد بین الاقوامی میڈیا میں ایسی خبریں بنوانا تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ پاکستان ان سرگرمیوں کے لیے غیر محفوظ ہے جن میں غیر ملکی اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہو۔

ان کے بقول ایس سی او کانفرنس پاکستان کے معاشی مفادات کے لیے نہایت اہم ہے اور اس دوران کسی بھی حملے سے نہ صرف پاکستان کے سیکیورٹی نظام کو دھچکا لگ سکتا ہے بلکہ اس کی بین الاقوامی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

اسی لیے دو روزہ اجلاس کے دوران اسلام آباد میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور 17 اکتوبر تک شہر کی سیکیورٹی کا مکمل انتظام پاکستانی فوج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

سنگاپور کے راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ سیکیورٹی تجزیہ کار عبد الباسط کا کہنا ہے کہ جیسے ہی پاکستان میں ایس سی او جیسے عالمی اہمیت کے حامل پروگرام کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ ملک میں سرگرم شدت پسند گروہوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔

ان کے بقول ان تنظیموں کے حملوں کی شدت اور تعداد میں اضافے کا بنیادی مقصد عالمی توجہ حاصل کرنا ہے اور یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان کے دو خطے دہشت گردی کی زد میں ہیں جہاں نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری بلکہ کسی بھی عالمی سطح کے اجلاس کے لیے بھی ماحول غیر محفوظ ہے۔

اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تحقیقی ادارے ’جیو پولیٹیکل انسائٹ‘ سے وابستہ محقق فہد نبیل کا کہنا ہے کہ ایس سی او جیسے عالمی نوعیت کی سرگرمی سے قبل ملک میں دہشت گردی کے کارروائیوں میں اضافے کے امکانات واضح تھے۔

ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے چین کے وزیرِ اعظم لی چیانگ چار روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ یہ 11 سال بعد کسی بھی چینی وزیرِ اعظم کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔

بی ایل اے کی جانب سے کراچی میں چینی شہریوں پر حالیہ حملے کے بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا۔

اس ویڈیو میں حملہ آور شاہ فہد چین کو اپنے سرمایہ کاروں کو بلوچستان سے نکل جانے کی دھمکی دیتے ہوئے مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ چین فوری طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر بندرگاہ کے منصوبوں کو بند کرے۔

مبصرین کا کہا ہے کہ کراچی میں چین کے شہریوں پر حالیہ حملے نے اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان پہلے سے موجود عدم اعتماد کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

کراچی میں ہونے والی کارروائی رواں سال پاکستان میں چین کے شہریوں پر ہونے والے دوسرا حملہ تھا۔

مارچ میں خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں شاہراہ قراقرم پر چین کے انجینئروں کے قافلے پر خودکش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی تھی۔ مگر پاکستان اور چین کی حکومت نے ٹی ٹی پی کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

چین کے وزیرِ اعظم لی چیانگ کے پاکستان پہنچنے سے کچھ دن قبل ہی پنجاب کی پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ جولائی 2021 میں خیبرپختونخوا کے ضلع اپرکوہستان میں شاہراہ قراقرم پر چینی انجینئروں کے ایک قافلے پر خودکش حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کے گرفتار دو شدت پسند ساہیوال میں ہائی سیکیورٹی جیل سے خطرے کی تنبیہ پر منتقلی کے دوران فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ 2021 کے اس خود کش حملے میں مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں نو چینی شہری، دو ایف سی اہلکار اور دو مقامی افراد شامل تھے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے سی ٹی ڈی پنجاب کے دعوے کے ردِ عمل میں بیان میں کہا کہ سوات سے تعلق رکھنے والے دونوں شہریوں کو چینی انجینئرز پر حملے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آج چین کی حکومت کو خوش کرنے کے لیے انہیں پولیس کے جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔

دہشت گردی میں اضافہ

پاکستان میں شدت پسندی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی تیسری سہ ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات اورسیکیورٹی اداروں کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے سبب مجموعی طورپر تشدد کے واقعات میں 90 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

رپورٹ کے مطابق اس دورانیے کے دوران ریکارڈ کیے گئے 328 واقعات میں مجموعی طور پر 722 افراد ہلاک ہوئے جن میں شہری، سیکیورٹی اہلکار اور عسکریت پسند شامل تھے جب کہ 615 افراد زخمی ہوئے۔

ان ہلاکتوں میں سے کگ بھگ 97 فی صد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ دہشت گردی کے 92 فی صد سے زیادہ واقعات اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں بھی انہی دو صوبوں میں ریکارڈ کی گئیں۔

شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیاں

مبصرین اور حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیمیں مضبوط ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں سرحد سے ملحقہ اضلاع میں دہشت گردی کی کارروائیاں تسلسل سے کر رہی ہے۔

شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر کے جائزے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ضم ہونے والے سابق قبائلی اضلاع میں حملوں کی شدت اور تعداد میں اضافے کی ایک وجہ ٹی ٹی پی کا حافظ گل بہادر سے وابستہ شدت پسند گروہوں اور منگل باغ کے لشکر اسلام کے ہمراہ مشترکہ کارروائیاں کرنا ہے۔

اسی طرح بلوچستان اور کراچی میں بلوچ کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں خصوصا بی ایل اے کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بی ایل اے نے اگست میں بلوچستان کے تقریباً 10 اضلاع میں بیک وقت متعدد حملے کیے تھے جن میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی شامل تھے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار فہد نبیل کا کہنا ہے کہ چاہے کراچی ایئر پورٹ کے باہر چینی شہریوں پر حملہ ہو یا بلوچستان میں اگست کے حملے، بی ایل اے گزشتہ کئی ماہ سے اپنے حملوں کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے فہد نبیل نے کہا کہ بی ایل اے نے حال ہی میں اپنی مجید بریگیڈ کے بعد ایک نئی انٹیلی جنس ونگ ’زراب‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نےکہا کہ کراچی ایئرپورٹ جیسے حساس مقام کے باہر چینی شہریوں کے قافلے پر حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علیحدگی پسند گروہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے چینی باشندوں کی نقل و حرکت جیسی حساس معلومات تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔

سول ایوی ایشن ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ حملے کی رات مختلف فلائٹس سے کم از کم 44 چینی شہری کراچی پہنچے تھے جو سی پیک اور نان سی پیک دونوں اقسام کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں