|
صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں منگل کو چینی انجینئرز کے قافلے پر ہونے والے حملے کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہو سکا۔ حملے میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اگرچہ واقعے کے چند گھنٹے بعد شاہراہ قراقرم کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے تاہم علاقے میں تاحال خوف و ہراس ہے۔
پاکستان میں تعینات چین کے سفیر نے بدھ کو بذریعہ ہیلی کاپٹر اپنے ورکرز کی حوصلہ افزائی کے لیے داسو کیمپ کا دورہ کیا۔ چینی انجینئرز پر حملے کے بعد تربیلا ٹی فائیو پروجیکٹ پر سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر کام روک دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کی دوپہر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں گاڑیوں کے ایک قافلے پر ہونے والے خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ قافلہ چینی انجینئرز کو لے کر داسو ڈیم جا رہا تھا۔
تاحال کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ تاہم بدھ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اعلٰی سطحی اجلاس کے دوران افغانستان کا نام لیے بغیر سرحد پار دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے منگل کو ہونے والے اس حملے کی مذمت کی تھی۔
پاکستان نے ملک کے اندر سیکیورٹی فورسز پر پے درپے حملوں کے ردِعمل میں حال ہی میں سرحد پار کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔
‘قافلے میں مخصوص گاڑی کو نشانہ بنانا باعثِ حیرت نہیں ہے’
حملے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والے پہلے چند افراد میں شامل صحافی عرفان خان کا کہنا ہے “میں اپنے دفتر میں کسی کام میں مصروف تھا کہ اچانک پولیس کی بھاری نفری کو بازار کے بیچ سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ میرے استفسار پر پولیس اہلکار نے بتایا کہ نزدیک ہی ایک بم دھماکہ ہوا ہے اسی سلسلے میں یہ نفری جا رہی ہے۔”
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ دوپہر کو ایک بج کر 15 منٹ پر انہوں نے موٹر سائیکل نکالی اور اپنے دوست کے ہمراہ جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
بیس منٹ بعد دھماکے والی جگہ پر پہنچے تو گہری کھائی میں گری ایک گاڑی سے آگ کے شعلے اور دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ ان کے مطابق سیکیورٹی پروٹوکول کا بغور جائزہ لینے کے بعد وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ حملہ چینی اہلکاروں کی گاڑی پر ہوا ہے۔
عرفان خان کے مطابق اس طرح کے قافلے آئے روز اسی سڑک سے گزرتے ہیں اور پروٹوکول کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی کی گاڑیوں کے حصار میں ہی چینی اہلکاروں کی گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں۔
اُن کے بقول اس بات کا علم ہر کسی کو تھا کہ اس قافلے میں چینی اہلکاروں کی گاڑی کون سی ہے، اس لیے خود کش حملہ آور کی جانب سے 12 گاڑیوں کے قافلے میں مخصوص گاڑی کو نشانہ بنانا باعثِ حیرت نہیں ہے۔
علاقے کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے عرفان خان نے مزید بتایا کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا اسے لاہور نالہ کہتے ہیں۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں بمشکل 20 گھر واقع ہیں۔ اسی علاقے میں ایک بہت بڑی آبشار ہے جو کہ ایک اونچے پہاڑ سے ایک گہری کھائی میں گرتی ہے تو اسی مناسبت سے اس علاقے کا نام لاہور نالہ پڑ گیا ہے۔
ان کے بقول اس واقعے کے بعد شاہراہ ریشم ہر طرح کی ٹریفک کے لیے تقریبا دو گھنٹے تک بند رہی۔
بشام پولیس اسٹیشن کے اہک اہلکار عمران اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہلاک ہونے چینی انجینئرز میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ جب کہ پاکستانی ڈرائیور کا تعلق لوئر کوہستان کے علاقے پٹن سے ہے۔ ان کے بقول خودکش حملہ آور کے جسم کے کچھ اعضا ملے ہیں جن کو فرانزک کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
ریسکیو 1122 سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 1 بج کر 10 منٹ پر انہیں بشام کنٹرول روم پر ایک کال موصول ہوئی کہ لاہور نالہ کے قریب ایک بس کو حادثہ پیش آیا ہے جو آگ کی زد میں ہے۔ جس کے بعد فوری طور پر دو فائر فائٹر اور چار میڈیکل ایمبولینسز روانہ کر دی گئیں۔
ریسکیو اہلکار کے مطابق جیسے ہی وہ وہاں پہنچے تو دو لاشوں کو سڑک پر پایا جنہیں فوری طور پر ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد فائر فائٹنگ ٹیمیں نیچے کھائی میں گئیں جہاں گاڑی میں لگی آگ بجھانے میں دو گھنٹے لگ گئے جس کے بعد گاڑی کے اندر سے جھلسی ہوئی لاشوں کو باہر نکالا گیا۔
ریسکیو اہلکار کے مطابق دو باڈیز شناخت کے قابل، ایک باڈی آدھی جلی ہوئی جب کہ باقی ماندہ تین مکمل طور پر جھلسی ہوئی تھیں۔
چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود تا حال کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس س قبل داسو ڈیم منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز پر جولائی 2021 میں حملہ کیا گیا تھا۔ حملے میں نو چینی انجینئر ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کا الزام ٹی ٹی پی پر عائد کیا گیا تھا۔
‘دہشت گردی کا چیلنج بڑھتا جا رہا ہے’
ماہرین کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت بننے کے بعد امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کی توقع تھی۔ لیکن میر علی، گوادر، تربت اور اب بشام میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں نے حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین حسین شہید سہروری کہتے ہیں کہ گو کہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لیے متحرک ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ چیلنج بڑھتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسین شہید سہروردی کا کہنا تھا کہ چینی باشندوں کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا جس کا لامحالہ اثر چین، پاکستان (سی پیک) منصوبوں پر پڑے گا۔
اُن کے بقول اگر یہ حملے اسی تواتر کے ساتھ ہوتے رہے یا ان میں اضافہ ہوا تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے اجتناب کریں گے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان جو کہ پہلے سے ہی اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، اس کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔
ان کے بقول چین دہشت گردی کی وجہ سے سی پیک منصوبوں کو رول بیک تو نہیں کرے گا۔ لیکن ان میں تاخیر کی وجہ سے منصوبوں کی لاگت بڑھنے کا خدشہ ہے۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ تاحال چین پاکستان میں مقیم اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمے داری پاکستان پر ہی ڈالے ہوئے ہے۔ لیکن اگر سیکیورٹی کی یہی صورتِ حال مسقبل میں برقرار رہتی ہے تو چین سیکیورٹی کے انتظامات خود سنبھالنے کا بھی مطالبہ کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول اگر ایسا ہوا تو پھر یہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔