|
کوئٹہ — پاکستان کی حکومت نے بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد صوبے کی قوم پرست اور سیاسی جماعتیں فوجی کارروائی سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔
پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف ایک جامع آپریشن کی منظوری دی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منگل کو نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی کابینہ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس میں بلوچستان میں سرگرم کالعدم عسکریت پسند تنظیموں ’براس’ (بلوچ راج آجوئی سنگر)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) بشمول مجید بریگیڈ کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی بھی منظوری دی گئی۔
حکومت اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب بلوچستان اور ملک کے دیگر شہروں میں عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور چینی باشندوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
محکمۂ داخلہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق رواں سال مارچ سے لے کر اب تک دہشت گردی کے 200 سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 207 افراد مارے گئے۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ایک خودکش بم دھماکے میں کم از کم 26 افراد ہلاک جب کہ 60 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ان واقعات میں سے اکثریت کی ذمہ داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس فوجی آپریشن کی شدید مخالفت سامنے آئی ہے۔
بلوچستان میں فوجی کارروائی کے مخالفین تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
’عوام اور ریاست کے درمیان خلیج بڑے گی‘
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نزدیک بلوچستان کے مسائل کا حل فوجی آپریشن نہیں۔ بلکہ اس کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے چاہیئں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دورِِ اقتدار میں بھی علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں کی تھیں۔
وہ مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ علیحدگی پسند تنظیموں سے ان کے مذاکرات 80 فی صد کامیاب ہو گئے تھے تاہم اچانک ان مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹڈ فوجی آپریشنز کا سلسلہ گزشتہ 20 برسوں سے جاری ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ماضی کے آپریشنز سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوا تو موجودہ آپریشن سے کیا نتیجہ نکلے گا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ نے کہا، “ہم اس آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن سے مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب کہ یہ اقدام عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھا دے گا۔
ان کے بقول “ریاست کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کی حکمت عملی اختیار کرے اور ایسے اقدامات کرے جو عوام کو ریاست سے مطمئن اور خوش رکھنے میں مددگار ثابت ہوں۔”
مفاہمتی پالیسی پر زور
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں نے بھی صوبے میں نئے فوجی آپریشن کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔
بی این پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن غلام نبی مری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کو چاہیے تھا کہ وہ موجودہ حالات میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کرنے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر مفاہمت کا اعلان کرتے۔
ان کے بقول پاکستان بننے سے اب تک بلوچستان میں یہ چھٹا فوجی آپریشن ہوگا۔ حکمران اور فوجی قیادت خود سوچیں کہ ان آپریشنز کا کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ہے۔
غلام نبی مری نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی اس طرح کے فوجی آپریشنز جاری ہیں۔ لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے صوبے میں الیکشن اور پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
ان کے بقول، ماضی میں جن آمروں نے بلوچستان میں فوجی آپریشنز کیے آج ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صوبے میں حالات خراب ہیں۔ حکمرانوں کو اب بھی یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔
’تفصیلات واضح نہیں‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر بلوچستان میں فوجی آپریشن کے فیصلے کا مقصد عوام اور غیر ملکی شہریوں بالخصوص چینی باشندوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بات چیت کے دروازے بھی کھلے رکھنے چاہییں۔
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں 1948 اور 1958 میں فوجی آپریشنز کیے گئے۔ اس کے بعد 1973 اور پھر 1977 میں بڑے پیمانے پر آپریشنز ہوئے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں چھوٹے پیمانے پر بھی کارروائیاں جاری رہی ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ حالیہ آپریشن کی کون کس طرح تشریح کرتا ہے، یہ ایک اہم بات ہے۔ کیوں کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی یہ کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ البتہ دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کا سلسلہ ضرور جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں جس آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے اب تک اس کی تفصیلات نہیں آئیں کہ یہ گرینڈ آپریشن ہوگا یا انٹیلی جنس بیسڈ ہوگا یا باقاعدہ کسی مخصوص علاقے میں سیکیورٹی فورسز کو تعینات کیا جائے گا۔
’دیر آید درست آید‘
پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما سردار عبدالرحمان کھیتران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان کی حکومت دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی کارروائی میں وفاقی اور عسکری قیادت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ جو دہشت گرد غریب مزدوروں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں ان کے خلاف بہت پہلے ہی منظم آپریشن کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ تاہم ہم یہ کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید۔
انہوں نے بلوچستان میں حالیہ شدت پسندی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک مزدور جو بچوں کی روزی کے لیے گھر سے نکلتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی صوبے اور شہر سے ہو، جب رات کو اس کی لاش گھر لائی جاتی ہے تو یہ غم اس کے بچوں پر پہاڑ بن کر گرتا ہے۔
انہوں نے کہا، “ریاست ماں جیسی ہے مگر ریاست ان معصوم شہریوں کو بھی جواب دہ ہے جو بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔”
ایچ آر سی پی کا فوجی آپریشن کے فیصلے پر اظہارِ تشویش
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بلوچستان میں جاری بغاوت اور تشدد کو حل کرنے کے لیے فوری، اعلیٰ سطح پر اور فیصلہ کن سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جائے جس میں تمام فریقین کو شامل کیا جائے۔
کمیشن نے حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کے بجائے مزید سخت کارروائیوں کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق، ماضی میں ایسے اقدامات کئی بار کیے گئے لیکن ان کے نتائج مقامی آبادی میں غصے اور عدم اعتماد میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ ریاست ہر حال میں بلوچستان کے شہریوں کے آئینی اور جائز حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔