بلوچستان میں بھی عام انتخابات کے بعد سرکاری اور غیر حتمی نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج سے لگتا ہے کہ صوبے میں اس بار پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتوں اور امیدواروں کو عوام نے مسترد کیا ہے جب کہ صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اپنی نشستیں بچانے میں تو کامیاب رہے مگر ان کی جماعتوں کے دیگر امیدواروں کو کامیابی نہ مل سکی۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ انتخابات میں قومی سطح کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار، مذہبی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام ف، جمعیت علماء اسلام نون، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین اور تحریک لبیک جب کہ قوم پرست جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت پرو اسٹیبلشمنٹ امیدواروں نے حصہ لیا ہے۔
پولنگ کے بعد گزشتہ شب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے انتخابی نتائج کے اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اب تک کے سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے 41 حلقوں کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔
ان نتائج کے مطابق بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام 6، پاکستان پیلپز پارٹی کے 9، پاکستان مسلم لیگ نون 8، آزاد امیدوار 6، بلوچستان عوامی پارٹی 2 جب کہ جماعت اسلامی کا ایک امیدوار کامیاب قرار پایا ہے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ انتخابات کے حالیہ نتائج کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر صرف کوئٹہ سٹی کے صوبائی اسمبلی کے 9 حلقوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو پرو اسٹیبلشمنٹ امیدوار یا جماعتیں غیر معروف نظر آتی ہیں۔
ان کے بقول بلوچستان عوامی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے تاہم اس بار اس جماعت کے اب تک صرف ایک امیدوار کو کامیابی حاصل مل سکی ہے۔
واضح رہے کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں نو زائیدہ سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی یا (باپ) بنائی گئی جس کے حوالے سے عوامی حلقوں میں یہ بات مشہور ہوئی کہ یہ جماعت راتوں رات اسٹیبلشمنٹ نے بنائی جو بعد میں پانچ سال تک بلوچستان میں حکمرانی کرتی رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو قوم پرستی کی سیاست میں ایک کشش آج موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد سے لے کر اب تک قوم پرست جماعتوں کو بلوچستان میں کامیابی ملتی رہی ہے اور جب قوم پرست جماعتوں کو شکست ہوئی ہے تو ان کی جانب یہ الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے جیسے کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی اور ساتھ میں بلوچستان میں پشتون قوم پرست جماعت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے بقول حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، پی کے میپ کے سربراہ محمد خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، خوشحال خان کاکڑ اور دیگر کو اپنے انتخابی حلقوں میں عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ دیے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ گو کہ قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور دیگر رہنماوں کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ مخالف رہا ہے تاہم اس کے باوجود عوام نے ان پر ووٹ کے ذریعے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
لیکن کئی ایک نتائج میں ایسا لگ رہا ہے کہ آج بھی بعض نمائندوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جیسے کہ رات بھر ہم نے دیکھا کہ این اے 264 میں جہاں سردار اختر جان مینگل جمال خان رئیسانی بازی لے جا رہے تھے لیکن صبح اچانک یہ اعلان ہوا کہ جمال خان رئیسانی اس نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔
میرے خیال سے ایسے امیدواروں کو کہیں سے حمایت ہی نہیں بلکہ سہولیات بھی حاصل ہیں۔
رشید بلوچ کے مطابق گو کہ قوم پرست جماعتوں کے قائدین کو کامیابی ملی ہے تاہم ان کے دیگر امیدواروں کے انتخابی نتائج غیر تسلی بخش ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں جمعہ کو یہاں کوئٹہ پریس کلب میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کہ قائد محمود خان اچکزئی نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں ہفتے کے روز 12 بجے تک الیکشن کمیشن کو نتائج درست کرنےکے لیے الٹی میٹم دے دیا ہے۔
محمو خان اچکزئی نے الزام عائد کیا ہے کہ “امیداروں سے کروڑ روپے لیے گئے ہیں۔ بکاؤ پارلمینٹ میں نہیں جائیں گے۔
ہمیں پارلمینٹ میں جانے نہیں دیا جا رہا ہے تو ٹھیک ہے ہر گلی میں احتجاج کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جموریت اور آئین کی بالادستی پختونخوا میپ کی کمزوری رہی ہے، ہمارے اکابرین نے بھی جموریت کے لیے جدوجہد کی ہے، جموریت کے لیے ایوب خان نے ہمارے اکابرین کو 14 سال جیل میں رکھا۔
دوسری جانب کوئٹہ میں ڈی سی کمپلیکس کے باہر آر اوز کے خلاف، نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزار امیدوار، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار اور کارکن احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ امیدواروں کے انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا گیا ہے۔
بی این پی مینگل کی سابق رکن صوبائی شکیلہ نوید دہوار نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کل تک جو انتخابی نتائج سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق ہمارے امیدوار بہتر پوزیشن میں تھے مگر فارم 45 اور 47 چھین لیا گیا۔
کوئٹہ گرینڈ الائنس کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار طاہر محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ نتائج کسی مذاق سے کم نہیں ہیں۔ اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی۔
ان کے بقول اگر سلیکشن ہی کرنی تھی تو اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
سابق صوبائی وزیر کھیل اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد عبدالخالق ہزارہ نے احتجاجی دھرنے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن کو باعث رحمت سمجھتے ہیں مگر یہ تو باعث زحمت بن چکا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کے 51 حلقوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا سلسلہ جاری ہے۔
ریٹرننگ افسران کی جانب سے جاری کردہ فارم 47 کے مطابق بلوچستان سے قومی اسمبلی کے 4 اہم حلقوں کے نتائج سامنے آ گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 کوئٹہ پشین سے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 52429 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 کوئٹہ تھری سے پیپلز پارٹی کے نوابزادہ جمال رئیسانی 10678 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262 کوئٹہ ون سے آزاد امیدوار عادل بازئی 20273 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 261 سوراب کم قلات کم مستونگ سے بی این پی کے اختر مینگل 3404 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ہیں۔
ریٹرنگ افیسران کی جانب سے جاری فارم 47 کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے 29 حلقوں کے حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں پارٹی پوزیشن کے تحت پاکستان مسلم لیگ(ن)7، جمعیت علماءاسلام کے7،پاکستان پیپلز پارٹی 5، بی اے پی اور اے این پی 2,2 نشستیں حاصل کرسکی۔
بی این پی عوامی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کے ایک ایک امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔