سپریم کورٹ کی طرف سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کے بعد تحریک انصاف کسی انتخابی نشان کے بغیر میدان میں ہے اور ان کے امیدواروں کو مختلف نشانات الاٹ کیے جارہے ہیں۔
پی ٹی آئی امیدواروں کے انتخابی نشانات مختلف ہونے سے ان علاقوں میں جہاں تعلیم کی شرح کم ہے، وہاں امیدواروں کو اپنے حمایتیوں کو اپنا انتخابی نشان یاد کروانا خاصا مشکل مرحلہ ہے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کو چینک کا انتخابی نشان ملا ہے۔ اسی طرح شوکت یوسفزئی کو ریکٹ، شہریار آفریدی کو بوتل، شاندانہ گلزار کو پیالہ اور مہر بانو قریشی کو چمٹے کا نشان ملا ہے۔
سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی کو جوتے، ڈاکٹر ریاض لانگ کو راکٹ، لاہور سے عالیہ حمزہ ملک کو ڈائس، پرویزالہیٰ کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کو فریج اور ملتان سے عامر ڈوگر کو کلاک کا انتخابی نشان ملا ہے۔
انتخابات میں کم وقت رہ جانے کی وجہ سے ہر امیدوار کے لیے اپنے انتخابی نشان کی تشہیر ایک مشکل ٹاسک ہے لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ اس کے باوجود کامیابی حاصل کرلیں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت میدان میں موجود نہیں اور مختلف کیسز کی وجہ سے یا تو وہ جیلوں میں قید ہے یا پھر ان کے کاغذات مسترد ہوچکے ہیں، دوسرے درجے کی قیادت کے لیے انتخابی جلسوں اور اجتماعات کیے بغیر انتخاب جیتنا ایک خاصا دشوار کام ہوگا۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس اب بھی پاپولر ووٹ موجود ہے اور وہ دیگر جماعتوں کو آسانی سے انتخاب جیتنے نہیں دیں گے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابی نشان بلا تو چلا گیا مگر عوام کی بھی ایک عدالت ہے جو آٹھ فروری کو لگے گی اور عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
بیرسٹر گوہر نے پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں اور ان کے انتخابی نشانات کے بارے میں سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
‘پی ٹی آئی اب بھی کامیاب ہو سکتی ہے’
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں بلے کا انتخابی نشان چھن جانا پی ٹی آئی کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر تحریکِ انصاف کوشش جاری رکھے تو اس مشکل کا مقابلہ کرسکتی ہے اور اب بھی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 70 سے 80 فی صد ووٹرز پڑھے لکھے ہیں اور اپنے حلقوں میں امیدواروں کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے ہیں، اس لیے اگر ان سب ووٹرز کو موٹیویٹ کیا جائے تو یہ بہت مشکل نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ ان تمام امیدواروں سے بیانِ حلفی لے جنہیں عمران خان کی منظوری سے ٹکٹ ملے تھے، کہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد پارٹی سے بے وفائی نہیں کریں گے۔
حامد میر نے کہا کہ امیدواروں سے بیان حلفی لینے کے بعد پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائے، اگر اچھی طرح سے مہم چلے تو پی ٹی آئی اپنے ووٹرز کو یہ پیغام پہنچا سکتی ہے کہ ان کے امیدواروں کے انتخابی نشان کون سے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف بطور جماعت ایوان میں نہیں ہوگی اور ان کے جیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو کسی جماعت میں شامل ہونا ہوگا۔ ایسے میں ہارس ٹریڈنگ اور دباؤ کے ذریعے کامیاب امیدواروں کو اپنی مرضی کی جماعت میں شامل ہونے کے الزامات بھی لگ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے ایک اور مشکل صورتِ حال مارچ 2024 میں اس وقت سامنے آئے گی جب سینیٹ انتخابات ہوں گے۔ جہاں 52 سینیٹرز کے ریٹائر ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے لیے اپنی جماعت کے سینیٹرز منتخب کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود نہیں ہوگی۔ ایسے میں ان کے سینیٹرز بھی سینیٹ میں نہیں آسکیں گے۔
پی ٹی آئی کے لیے انتخابات کے بعد خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا حصول بھی ممکن نہیں ہوگا اور کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ہی وہ مزید نشستیں حاصل کر سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہتے ہیں تحریکِ انصاف بطور جماعت تو انتخاب میں حصہ نہیں لے رہی لیکن ان کے آزاد امیدوار اگر اپنی بھرپور کوشش کریں اور اپنے ووٹرز کو اپنا انتخابی نشان یاد کروا کر پولنگ اسٹیشن تک لے آئیں تو الیکشن میں کامیابی ہوسکتی ہے۔
کنور دلشاد کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتی سیٹوں کا حصول ممکن نہیں ہوگا لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی اب بھی سیاست سے باہر نہیں ہوئی۔ اگر وہ اپنی سیاسی حکمتِ عملی بہتر بنائیں تو بھی آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں پی ٹی آئی بطور جماعت آئندہ اسمبلی میں نہیں ہوگی لیکن وہ اگر کسی چھوٹی جماعت کے ساتھ اتحاد کر کے اپنی الگ شناخت بنائے تو اسے فائدہ ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے اتحاد کے حوالے سے بعض اطلاعات پر حامد میر نے کہا کہ ان کے خیال میں اس بار جماعتِ اسلامی انتخابات میں سرپرائز دے سکتی ہے کیوں کہ پہلی مرتبہ جماعت اسلامی نے 95 فی صد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ٹکٹس دیے ہیں۔
حامد میر کے مطابق انتخاب جیتنے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس یہ آپشن موجود ہوگا کہ وہ کس جماعت کے ساتھ مل کر سینیٹ انتخابات سمیت دیگر اہم معاملات میں بات کر سکے گی۔