بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ فنڈنگ پر پابندی کے بعد لوک سبھا انتخابات پر اس کے اثرات کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
’الیکٹورل بانڈز‘ اسکیم کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد بھارت میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ کیا اس فیصلے کا سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور اپوزیشن کانگریس کی انتخابی مہم پر کوئی اثر پڑے گا؟
واضح رہے کہ اگلے پارلیمانی انتخابات مارچ سے مئی کے درمیان ہونے والے ہیں اور بی جے پی کامیابی حاصل کر کے تیسری بار مسلسل اقتدار میں واپس آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بی جے پی کے لیے دھچکہ ہے اور اس کی انتخابی مہم پر اس کا اثر پڑے گا۔ جب کہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے کا اس کی انتخابی مہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مودی حکومت نے 2017 میں اس منصوبے کو متعارف کرایا تھا، تاہم وزارت مالیات کے شعبہ اقتصادی امور نے 2018 میں اس کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔
اس اسکیم کے تحت سیاسی جماعتوں کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے توسط سے ’الیکٹورل بانڈز‘ کے ذریعے جتنا چاہے چندہ دے سکتا تھا۔ چندہ دہندہ کی شناخت اور چندے کی رقم کو خفیہ رکھا گیا تھا۔
ایک آزاد ادارے ’ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک رائٹس‘ (اے ڈی آر) کے مطابق گزشتہ چھ برس کی آڈٹ رپورٹس سے انکشاف ہوا ہے کہ اس دوران بی جے پی کو 65 ارب روپے بطور چندہ ملے ہیں۔
کانگریس کو 11 ارب روپے سے زائد، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کو 10 ارب سے زائد ملے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) واحد پارٹی ہے جس نے الیکٹورل بانڈز سے چندہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
‘فیصلے کا بی جے پی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا’
تجزیہ کاروں نے جہاں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی ہے وہیں ان کا اصرار ہے کہ اب جب کہ انتخابات میں ڈیڑھ دو ماہ ہی رہ گئے ہیں۔ اس فیصلے کا کوئی بہت زیادہ اثر سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم پر نہیں پڑے گا۔
سینئر تجزیہ کار اور خبر رساں ادارے ’یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا‘ (یو این آئی) کے سابق ایڈیٹر شیخ منظور احمد بھی دیگر تجزیہ کاروں کی آرا سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ بی جے پی نے الیکشن کی تیاری مکمل کر لی ہے، اس کو صرف انتخابی مہم چلانی ہے۔
ان کے مطابق بی جے پی میں سب سے زیادہ انتخابی ریلیوں سے وزیرِ اعظم مودی خطاب کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی انتخابی مہم پر خرچ ہونے والا پیسہ حکومت برداشت کرتی ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کا بی جے پی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ کانگریس اور چھوٹی پارٹیوں پر اثر پڑے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی 10 سال سے مرکز میں اقتدار میں ہے اور متعدد ریاستوں میں اس کی حکومت ہے۔ اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور قانون داں نیلم مہاجن سنگھ شیخ منظور احمد کی باتوں کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ فیصلے کا مالی اعتبار سے بی جے پی کی انتخابی مہم پر اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔ کیوں کہ اس نے الیکٹورل بانڈز سے بہت زیادہ پیسہ اکٹھا کر لیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے نے بی جے پی کی ساکھ کو داغ دار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ بی جے پی شفافیت لانے اور بلیک منی ختم کرنے کی بات کرتی رہی ہے۔ لیکن اس اسکیم میں کوئی شفافیت نہیں تھی بلکہ صنعت کاروں کی جانب سے اپنی بلیک منی اسے چندے میں دی جا رہی تھی۔
ان کے مطابق جب الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر اس اسکیم کے تحت ملنے والے چندے کی تفصیلات اپ لوڈ کر دے گا تو عوام کو معلوم ہو جائے گا کہ کس پارٹی کو کس نے اور کتنا چندہ دیا ہے۔
شیخ منظور کہتے ہیں کہ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور اپوزیشن اور شفافیت کی تحریک چلانے والے کارکنوں کے الزام میں کتنا دم ہے اس کا بھی پتا چل جائے گا۔
نیلم مہاجن کے مطابق جب تمام تفصیلات منظرِ عام پر آجائیں گی تو اس کی روشنی میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ بی جے پی جو شفافیت کی بات کرتی تھی خود اس کا دامن صاف نہیں ہے۔
ان کے خیال میں اس کے بعد عوام بی جے پی کو ووٹ دینے کے بارے میں سوچیں گے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اب بی جے پی آسانی سے پارلیمانی الیکشن جیت نہیں پائے گی۔
بی جے پی الیکٹورل بانڈز میں عدم شفافیت کی بات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے مطابق اس اسکیم نے سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے چندے میں شفافیت لانے کے مقصد کو قابلِ ذکر حد تک پورا کیا ہے۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔
‘لیول پلیئنگ فیلڈ کا فیصلہ عوام کریں گے’
سینئر بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن کے اس دعوے پر کہ الیکٹورل بانڈز نے بی جے پی کو اس کے حریفوں پر برتری دلا دی تھی۔ ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک لیول پلیئنگ فیلڈ کا سوال ہے تو اس کا فیصلہ عوام کریں گے کہ کون فیلڈ میں ہے اور کون باہر۔
دریں اثنا سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے جمعے کو دعویٰ کیا کہ انتخابات سے عین قبل اس کے تمام بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں۔
پارٹی کے خازن اجے ماکن نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ پارٹی نے جو چیک ایشو کیے ان کو بینکوں نے آنر نہیں کیا۔
اس الزام کے چند گھنٹوں کے بعد ٹیکس ٹربیونل نے کہا کہ کانگریس اپنے بینک اکاؤنٹ آپریٹ کر سکتی ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کی تصدیق ٹربیونل میں پیش ہونے والے کانگریس کے رکن پارلیمان و وکیل وویک تنکھا نے کی ہے۔
شیخ منظور احمد کے مطابق محکمہ انکم ٹیکس نے حالیہ دنوں میں کانگریس کو 250 کروڑ روپے کا نوٹس دیا تھا۔ اس پر کانگریس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے اسے کوئی نوٹس نہیں ملا۔ کانگریس اسے حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔
دونوں تجزیہ کاروں نے دیگر مبصرین کی اس بات سے اتفاق کیا کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے آزادانہ اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں بھارت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور پارلیمانی انتخابات کے صاف ستھرے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
جہاں تک الیکٹورل بانڈز کا معاملہ ہے تو حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس کا مقصد بلیک منی کو کنٹرول کرنا تھا تاکہ سیاسی جماعتوں کو جو بھی چندہ ملے وہ بینک کے توسط سے اور وائٹ منی میں ملے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اپوزیشن اور درخواست گزاروں کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ اس کا مقصد بلیک منی کو کنٹرول کرنا نہیں تھا۔ اس کے مطابق بلیک منی کو کنٹرول کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ اس نے اس اسکیم کے تحت حکومت اور کارپوریٹ گھرانوں کے درمیان ’کسی مفاہمت‘ کی بھی بات کہی ہے۔
آئینی بینچ میں شامل جسٹس سنجیو کھنہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ الیکٹورل بانڈز سے سب سے زیادہ چندہ حکمراں جماعت کو ملا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے اخبار انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کارپوریٹ گھرانے تمام سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیتے ہیں۔ لہٰذا جن پارٹیوں کو چندہ ملتا رہا ہے اس فیصلے کا ان پر اثر پڑے گا۔
لیکن ان کے بقول سب سے زیادہ بی جے پی متاثر ہو گی کیوں کہ اسے سب سے زیادہ چندہ ملا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اسے نہ تو آرڈیننس کے ذریعے کالعدم کیا جا سکتا ہے نہ ہی قانون بنا کر اور ان کے خیال میں حکومت ایسا کرے گی بھی نہیں البتہ وہ دوسری اسکیم لے آئے گی۔