وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ سالوں سے بلوچستان کے لوگوں کے اندر نفرت گھولی جارہی ہے۔
کوئٹہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تشدد کا حق کسی کے پاس نہیں یہ صرف اسٹیٹ استعمال کرسکتی ہے اور یہ ریاست کی جانب سے حق یونیفارم والے افراد ہی استعمال کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ کسی کو بھی کسی بھی وجہ سے تشدد کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے میں یہ سوچ ہے کہ یہ ترقی پزیر ہے، سڑکیں نہیں ہے،پانی، بجلی، گیس، تعلیم کی سہولیات نہیں اس لیے یہ یہاں بغاوت ہے، حقیقت اور تاثر میں بہت فرق ہے۔
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ وہ شخص جو لڑ رہا ہے، جس نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے وہ کہتا ہے کہ میں اس بنیاد پر نہیں لڑ رہا میں تو بلوچ قومیت پر ایک نیا اسٹیٹ بنانا چاہتا ہوں جس میں افغانستان ایران اور پاکستان کا کچھ حصہ شامل ہو، میں افغانستان اور ایران میں تشدد نہیں کروں گا کیونکہ وہ مارتے زیادہ ہیں لیکن بلوچستان میں کروں گا بلوچستان کے اپنے حساس معاملات ہیں اور ادھر حکومتوں کا تشدد کے لحاظ سے رویہ بھی کمپرومائزنگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذہب کے نام پر تشدد دہشتگردی ہے لیکن ہم نے اس کے لیے نئے ٹرم ایجاد کرلی ہے جو ہے ناراض بلوچ لیکن ناراض بلوچ تو وہ ہے جسے نوکری نہیں مل رہی تعلیم کے باوجود تو اسے ہمیں گلے لگانا ہے لیکن معصوم شہریوں کو قتل کرنے والا ناراض بلوچ کیسے ہوسکتا ہے؟
سرفراز بگٹی نے کہا اگر کہ ملازمتیں بکیں گی تو ریاست اور نوجوانوں میں فاصلہ آئے گا، بے روزگاری سے نوجوانوں کا اعتماد ختم ہوگا، کچھ ہماری غلطیاں بھی ہیں مگر ہم آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، وفاق سے آئینی فورمز کے ذریعے اپنے حقوق کی بات کریں گے۔