|
سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ عدالت کیس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد کر دی ہے۔ جب کہ سینیٹر فیصل واوڈا کو اپنے جواب پر نظرِ ثانی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔
چیف جسٹس نے یہ پریس کانفرنسز براہ راست دکھانے پر 34 ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کر دیے۔ چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کرنا ارکانِ پارلیمنٹ کا حق نہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے 15 مئی کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ پر تنقید کی گئی تھی۔ فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ اگر ہماری پگڑی اچھالی گئی تو ہم بھی دوسروں کی پگڑیاں اچھالیں گے۔
اسی طرح مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دوہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا۔ لیکن عدلیہ جیسے ادارے میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ دوہری شہریت والے کسی شخص کو جج ہونا چاہیے؟
چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔ سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
‘یہ محض ایک اتفاق تھا’
چیف جسٹس نے پوچھا کیا مصطفی کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہو کر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟َ مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیوں آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں، بطور آفیسر آف کورٹ بتائیں آپ کے مؤکل نے توہین کی یا نہیں۔ اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مصطفی کمال نے توہین نہیں کی۔ مصطفیٰ کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔ عدالت غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟ ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تیکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے اپنے امور کی انجام دہی کریں۔ اراکانِ پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کریں۔ اگر پاکستان کی خدمت کے لیے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں۔
‘اگر مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو معافی قبول نہیں ہو گی’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کریں گے۔ آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی۔ اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا۔ آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے۔ قوم کو ایک ایسی پارلیمینٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے کہا کہ آپ تو سینیٹر ہیں۔ سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر کوئی کہے عدالتوں میں تاخیر سے فیصلے ہوتے ہیں تو منصفانہ تنقید ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمیں قائل کریں نوٹس واپس لیتے ہیں۔ بتائیں اس معاملے پر دین کیا کہتا ہے۔ آپ نے پریس کلب میں بات کی۔ پبلک میں بات کرنا اور تنہائی میں بات کرنے میں فرق ہے۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ دین تو بہت کچھ کہتا ہے، ہم پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے معافی مانگ لیتے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈکٹ کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔ اسی طرح عدالت میں بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔ ججز کی دوہری شہریت پر بھی قانون پابندی عائد نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا اگر پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈکٹ کو زیرِ بحث لایا جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توہینِ عدالت کے قانون کا اطلاق ہو گا۔
‘پیمرا نے کورٹ رپورٹنگ سے متعلق عجیب قانون بنا دیا ہے’
چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا نے کورٹ رپورٹنگ نہ کرنے کا عجیب قانون بنا دیا۔ یہ زیادتی ہے، کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہو گی۔ پیمرا کو آئین اور قانون بنانے کا اختیار کیسے حاصل ہوا۔ یہ اختیار پیمرا کو کیسے ملا۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگائیں گے۔ ججز کی دوہری شہریت کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں۔ ہم توہینِ عدالت کا کیس سن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ گالی گلوچ کر کے ڈرا دھمکا کے اپنی مرضی کے فیصلے لیں۔ امام مالک نے کہا تھا کہ اگر کسی سے اختلاف کرو تو ایسے کرو کہ جیسے سامنے والے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں وہ چڑیاں نہ اڑیں۔
لوگوں نے ہمیں آپس میں جنگیں کرنے کے لیے نہیں بٹھایا ہوا۔ کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پر بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں۔ اگر سمجھتے ہیں کوئی بے ایمان جج ہے تو ریفرنس لے کر آئیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی تجویز ہے تو ہمیں لکھ کر دیں، گالم گلوچ کر کے عدالتوں پر دباؤ ڈالنے والے آپ لوگ نہیں ہیں۔ وہ کچھ اور اچھے لوگ ہیں جو گالم گلوچ کر کے دباؤ ڈالتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مختلف ٹی وی چینلز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں۔ چینل کہہ دیتے ہیں کہ فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔
ٹی وی چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں، پریس کانفرنس نشر کرنے والے 34 چینلز کو نوٹسز ہونا تو چاہیے جب جیبوں پر بوجھ پڑے گا تب انھیں اظہارِ رائے کی آزادی معلوم ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے بھی تائید کی کہ میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے۔ دونوں پریس کانفرنس نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کو فی سیکنڈ ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ ہونا چاہیے۔
‘ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے کسی کو توسیع دی تھی’
چیف جسٹس نے کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے آ کر بات کر دیتے۔ غیبت کی ممانعت ہے، شاید جتنی گالیاں مجھے پڑی ہیں کسی اور کو نہیں ملیں۔ جتنا گالم گلوچ کا کلچر یہاں ہے اتنا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بھی رائے دے سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے کسی کو توسیع دے دی۔ مگر ہم ایسی باتیں نہیں کہیں گے۔ عدالتی فیصلوں پر ضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، کسی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔
فیصل واوڈا کے وکیل معیز احمد نے کہا کہ میرے مؤکل نے ملک کی بہتری کے لیے باتیں کیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے جواب دیا کہ آپ نے دو ججز جسٹس بابر ستار اور جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف پریس کانفرنس کی، آپ کی کانفرنس ملک کے لیے نہیں بلکہ مخصوص تھی۔
سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کے خلاف شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کا کنڈکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے توہینِ عدالت کا مواد نشر کرنے پر 34 ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز بتائیں ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ کریں۔
کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی کئی ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی موجود تھے۔