|
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں کالعدم قرار دی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنوں پر فائرنگ کے بعد کارکنوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
صورتِ حال کے جائزے کے لیے وزیرِ اعلٰی کی میزبانی میں حکومت نے بھی جمعرات کو ایک جرگہ بھی کیا گیا ہے جس میں وزیرِ داخلہ محسن نقوی، گورنر فیصل کریم کنڈی، وفاقی وزیر امیر مقام کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی اصل فریق پی ٹی ایم ہے، لہذٰا اس کے بغیر کوئی جرگہ بھی فائدہ مند نہیں ہو گا۔
خیال رہے کہ پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں صوبے میں بے امنی کے خلاف ‘پشتون قومی عدالت’ کے نام سے ایک جرگہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
لیکن بدھ کو پولیس نے تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی میں قائم اس جرگے کے مقام پر دھاوا بول دیا تھا۔ پی ٹی ایم نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے کارکنوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں چار کارکن ہلاک ہو گئے۔
جمعرات کو وزیرِ اعلٰی ہاؤس میں بلائے گئے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ اس مشاورت کا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا اور معاملے کو پرامن انداز میں حل کرنا ہے۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق جرگے میں شریک اعلٰی حکام اور سیاست دانوں نے معاملات افہام و تفہیم سے طے کرنے کے لیے وزیرِ اعلٰی کو اختیارات دے دیے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، محسن داوڑ، میاں افتخار حسین محمد علی شاہ باچا، سکندر شیرپاؤ اور اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی بھی جرگے میں شریک ہوئے۔
جرگے کے بعد ایک بیان میں خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ صوبے میں سب کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری حکومت کی ہے۔ لہذٰا اس جرگے کے ذریعے اس معاملے کا پرامن حل نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایمل خان نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی ایم ایک پُرامن احتجاجی تحریک ہے اور پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ لہذٰا اس پر عائد کی گئی پابندی بھی فوری طور پر ہٹانی چاہیے۔
یہ جرگہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بدھ کو وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کو کالعدم جماعت قرار دیا گیا ہے، لہذٰا اس سے رابطہ رکھنے والے شخص کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کر دیے جائیں گے۔
‘جرگے میں اصل فریق تو تھا ہی نہیں’
خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پہلے وزیرِ اعلٰی گنڈا پور کہتے تھے کہ “یہ ایک گولی چلائیں تو ہم 10 چلائیں گے” لیکن اب مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو وہ پھر براہِ راست منظور پشتین سے ہونے چاہئیں اور انہیں آج کے حکومتی جرگے میں بھی بلایا جانا چاہیے تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پشتون روایات کے کے مطابق جرگے میں تمام فریقوں کو بٹھا کر مسئلے کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں تو اصل فریق موجود ہی نہیں تھا۔
سینئر تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ سیاسی تنظیموں کے ساتھ مسائل زور زبردستی نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے ساتھ آسانی کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں۔