ستر کی دہائی میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بنانے والی جمعیت علماء اسلام (ف) سکڑ کر خیبرپختونخوا کی سات اور قومی اسمبلی کی چار نشستوں تک محدود ہو چکی ہے۔
دینی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ہمیشہ سے ایک طاقت ور عوامی جماعت رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس جماعت کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
سن 2018 کے انتخابات کے بعد 2024 کے انتخابات میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمٰن الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے رہے ہیں۔
آخر جمعیت علمائے اسلام کی مقبولیت میں کمی کی وجہ کیا ہے؟
جامعہ پشاور کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ ڈاکٹر حسین شہید سہروردی اس خطے میں مذہبی جماعتوں کے کردار پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا ماننا ہے کہ جے یو آئی (ف) پاکستان کے پاس اب کوئی مضبوط بیانیہ نہیں ہے کہ جس پر عوام انہیں ووٹ دیں۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام میں مذہبی رجحانات بلاشبہ موجود ہیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن ان طبقات سے دور جا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ “پہلے وہ ملک میں نفاذِ شریعت کا نعرہ لے کر میدان میں اترتے تھے۔ ایم ایم اے کی شکل میں ہم نے ان کا اقتدار بھی دیکھا۔ لیکن اب وہ شریعت کی بات کم کرتے ہیں۔”
حسین شہید سہروردی کے بقول “عوام اب یہ سمجھتی ہے کہ جے یو آئی (ف) بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اقتدار کے لیے سیاست کر رہی ہے۔”
اُن کے بقول “دوسری اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی شکل میں انہوں نے جو اتحاد بنایا اس سے مولانا صاحب بری طرح ایکسپوز ہو گئے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کتنے قریب ہیں۔”
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ شکست کی وجہ جمعیت علمائے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں تناؤ ہے۔
تجزیہ کار اور اینکر شاہد رند کا ماننا ہے کہ جے یو آئی (ف) نے بلوچستان میں 2018 کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہر کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مولانا کے غصے کی اصل وجہ اُن کے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست ہے۔
اُن کے بقول “اس بار انہوں نے خیبرپختونخوا میں ایسے اُمیدواروں کو ٹکٹ دیے جنہیں مذہبی طبقے میں زیادہ پذیرائی نہیں تھی۔”
شاہد رند کے بقول یہ فارمولہ البتہ بلوچستان میں کامیاب رہا جہاں صاحبِ ثروت اُمیدواروں نے نشستیں جیت لی ہیں۔
اُن کے بقول اس مرتبہ جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچ حلقوں سے بھی سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس سے قبل جماعت کا زیادہ تر اثر پشتون علاقوں میں ہی تھا۔
کیا پاکستان میں مذہبی ووٹ بینک سکڑتا جا رہا ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ بینک میں کمی آئی ہے۔ لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ مذہبی ووٹ بینک کم ہوا ہے یا نہیں۔
اُن کے بقول ہم نے ماضیٔ قریب میں دیکھا کہ کس طرح تحریک لبیک بنی اور ایک اچھا خاصا ووٹ بینک بھی لیا۔
ڈاکٹر حسین شہید سہروردی سمجھتے ہیں کہ دراصل جے یو آئی (ف) کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔
اُن کے بقول “میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک مضبوط مذہبی سلوگن کی کمی ہے۔ یہودی ایجنٹ کے الزامات کی رٹ لگائے رکھنا اور صرف پی ٹی آئی کو ہی ہدف بنانا اور دوسری جماعتوں کی کرپشن کا ذکر نہ کرنا بھی شکست کی وجہ ہے۔”
اُن کے بقول جس طرح مولانا نے عبوری حکومت میں اپنے قریبی عزیزوں کو نوازا ظاہری بات ہے کہ ووٹرز نے اس طرح کا ہی ردِعمل دینا تھا۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما سمجھتے ہیں کہ جان کو درپیش خطرات کے باعث پارٹی کے امیدواروں نے کھل کر مہم نہیں چلائی۔
کیا سیکیورٹی خدشات جے یو آئی (ف) کی شکست کا باعث بنے؟
تیس جولائی 2023 کو خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کے اجتماع پر خودکش حملے میں 50 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد جے یو آئی (ف) کے حلقوں میں کافی خوف طاری رہا۔
شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے نہ صرف اس حملے کی ذمے داری قبول کی گئی بلکہ مستقبل میں ایسے حملوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مولانا جلیل جان جے یو آئی (ف) کے صوبائی ترجمان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی جانب سے بھی ان کو کہا گیا کہ پارٹی قائد مولانا فضل الرحمٰن پر حملے کا خدشہ ہے۔
اُن کے بقول “ایسے میں ہم انتخابی مہم کیسے چلاتے۔ مولانا فضل الرحمان جمعیت کے قائد ہیں جو خیبرپختونخوا کے زیادہ تر علاقوں میں جا ہی نہیں سکے۔”
صوبہ بھر میں ہمارے صوبائی قائدین تک بڑے جلسے منعقد کرنے میں ناکام رہے کیوں کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بار بار کہا جاتا رہا کہ ان کے اجتماعات میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔
اُن کے بقول ہم انتخابات سے قبل بھی اس کا اظہار کرتے رہے کہ ابھی انتخابی ماحول نہیں بنا اور ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔ تاہم ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر ہم انتخابی اکھاڑے میں اترے۔
کچھ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران صرف جے یو آئی (ف) کو نشانہ نہیں بنایا گیا اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرتی رہی۔
حسین شہید سہروردی کے مطابق”پیپلزپارٹی نے دہشت گردی میں بے نظیر بھٹو کو کھویا ہے اس کے باوجود وہ ملک بھر میں بڑے بڑے اجتماعات کرتی رہی۔”
اُن کے بقول اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی علاقائی جماعت ہے اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر بھی یہی جماعت رہی۔ لیکن پھر بھی وہ اجتماعات کرتے رہے اور ان کی مرکزی لیڈر شپ اضلاع کی سطح پر ہمیں انتخابی مہم چلاتی نظر آئی۔