|
“مجھے ایک موقعے پر ایسا لگ رہا تھا کہ میرا سانس بند ہو جائے گا۔ حبس اور گرمی سے میں نڈھال ہو کر گر چکا تھا۔ میری بیوی نے مجھ پر پانی ڈالا تو میں سانس لینے کے قابل ہوا۔ حج کے دوران گرمی تو تھی لیکن وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔”
یہ الفاظ ہیں محمد رفیق (فرضی نام) کے جو اس سال حج کی ادائیگی کے لیے پاکستان سے سعودی عرب پہنچے تھے۔ لیکن منیٰ میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
رواں سال سعودی عرب میں درجۂ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ہزار کے قریب حجاج ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی وزارت حج و مذہبی امور نے اب تک 35 پاکستانیوں کی اموات کی تصدیق کی ہے۔
رواں سال 18 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے حج کا فریضہ ادا کیا ہے جن میں سے 16 لاکھ سے زائد بیرون ممالک سے آئے تھے۔ حج کے دوران بڑے پیمانے پر ایسی شکایات موصول ہو رہی ہیں جن میں شدید گرمی میں حجاج کو مشکلات کا سامنا رہا۔
سعودی حکام کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم مختلف ممالک کی طرف سے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق مصر سے تعلق رکھنے والے حجاج سب سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں جن کی تعداد 600 سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
بھارت کے 68 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جب کہ 144 کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔ اردن کے 60 اور تیونس کے 35 حاجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ ایران کے 11 اور سینیگال کے تین عازمین حج ہلاک ہوئے۔
پاکستانی وزارت حج کے ڈائریکٹر حج عبدالوہاب سومرو نے 35 حجاج کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے حجاج میں سے 20 مکہ میں اور چھ مدینہ میں ہلاک ہوئے جب کہ چار منیٰ میں تین عرفات میں اور دو اموات مزدلفہ میں ہوئی ہیں۔
وزارتِ حج کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک مشکل حج تھا کیوں کہ پارہ تقریباً 50 ڈگری تک تھا اور موسم کے حوالے سے حاجیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی حاجی کی وفات ہونے کی صورت میں ہمیں اطلاع دی جاتی ہے۔ ہماری ٹیم وہاں جاتی ہے اور اس کے بعد سعودی حکومت نے ایک نظام مرتب کیا ہوا ہے جس کے تحت ورثا سے باقاعدہ تدفین کی اجازت مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد غسل دے کر حرمین میں نماز جنازہ ادا کر کے تدفین کی جاتی ہے۔
‘کوئی سعودی ہماری بات سمجھنے کو تیار نہیں تھا’
حجاج کرام کی تکالیف کے حوالے سے محمد رفیق نے دعویٰ کیا کہ انتہائی ناقص انتظامات تھے جن کے بارے میں پاکستانی حکام سے شکایت کی جاتی تو کہا جاتا تھا کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور سب کچھ سعودی حکام کے پاس ہے۔ لیکن اس بارے میں جب ہم سعودی حکام سے بات کرتے تھے تو پہلے انہیں اپنی بات سمجھانا ہی مشکل تھا اور اگر وہ کچھ سمجھ بھی جاتے تو وہ پاکستانی خدام سے مدد لینے کا کہتے تھے۔
محمد رفیق نے کہا کہ مکہ میں ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا، سامنے بسیں کھڑی ہوتی تھیں اور ہمیں کہا جاتا تھا کہ نہیں بسیں نہیں چلیں گی۔ ہم میں سے ہر حاجی پانچ سے سات کلومیٹر پیدل چل رہا تھا۔ 52 ڈگری کی اس گرمی میں چند قدم چلنا محال تھا اور ایسے میں جوانوں کی ہمت ختم ہو رہی تھی تو بزرگ کیا کرتے۔ اسی وجہ سے ہم نے کئی جگہ پر لوگوں کو گرمی کی وجہ سے گرتے ہوئے دیکھا لیکن بدقسمتی سے کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔
رفیق کا کہنا ہے کہ وہاں مرتے ہوئے شخص کے منہ میں کوئی پانی کا قطرہ ڈالنے والا نہیں تھا، جون کے اس سخت موسم جگہ جگہ واٹر کولر ہونے چاہیے تھے۔ لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر مکتب میں گنجائش سے کہیں زیادہ حاجی ہونے سے ایئر کنڈیشنر کام ہی نہیں کر رہا تھا۔ ایسے میں ہزاروں حاجیوں کو باہر تپتی دھوپ میں بیٹھنا پڑا۔
اُن کے بقول سعودی حکام کو اس بات کا علم تھا کہ جون میں کس قدر گرمی پڑتی ہے اور حاجیوں کے لیے کس قدر مشکلات ہو سکتی ہیں۔ لیکن وی آئی پی حج کرنے والوں کے لیے تو الگ سڑکیں اور الگ راستے تھے لیکن ہم سرکاری حج کرنے والوں کو وہاں پاکستان حکومت نے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔
ٹرانسپورٹ کے لیے سب سے پیسے لیے گئے لیکن انہیں وہاں کے لالچی ٹیکسی ڈرائیورز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو دس ریال والے سفر کے لیے 250 ریال وصول کر رہے تھے۔
صرف محمد رفیق نہیں بلکہ کئی اور پاکستانی حجاج نے بھی ایسے ہی گلے شکوے کیے ہیں۔
خیبر پختونخوا سے جانے والے رحمان (فرضی نام) نے کہا کہ میں پہلے بھی حج کرچکا ہوں لیکن جو بدانتظامی اس بار دیکھنے میں آئی۔ ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
انہیں سب سے زیادہ غصہ پاکستانی معاونین پر تھا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عربی زبان سے نابلد یہ لوگ وہاں کسی کام کے نہیں ہیں۔ جب بھی ان سے کوئی راستہ پوچھا جائے یا پھر کسی معاملہ میں مدد مانگی جائے تو یہ خود کو ٹرانسپورٹ کے معاملات یا پھر کسی اور شعبہ سے منسلک ہونے کا کہہ کر نکل جاتے ہیں۔
اُن کے بقول کسی سعودی اتھارٹی سے بات کرنا تو عذاب ہے جو ‘یلا حاجی’ کہہ کر بدتمیزی سے نکل جاتے ہیں اور اگر کسی بات پر اصرار کیا جائے تو یہ لوگ ہاتھ اٹھانے لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس والے وہاں کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، مزدلفہ میں ہمیں ایک پہاڑ کے دامن میں بٹھا دیا گیا۔ گرمی حبس اور پیاس کی شدت سے وہاں لوگ گر رہے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، رمی کے دوران کسی جگہ پانی کا بندوبست نہیں تھا۔ مانا کہ وہاں گرمی تھی لیکن اسی حساب سے انتظام ہونے چاہیے تھے۔
حجاج کی تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی حکام سعودی حکام کی طرف سے دی گئی سہولیات سے مطمئن نظر آرہے ہیں۔
وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے اعتراف کیا کہ اس سال عالمی ہیٹ ویو کے تناظر میں سعودی اداروں نے مشاعر کے دنوں میں حجاج کرام کی سہولت اور حفاظت کے لیے بہترین انتظامات کیے تھے۔ مشاعر مقدسہ میں درجہ حرارت کم رکھنے کے لیے جابجا پانی کے فوارے، ٹھنڈے پانی اور مشروبات کی سبیلیں لگائی گئی تھیں جب کہ حجاج کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے موبائل ہیلتھ یونٹ، ڈسپنسریاں قائم کی گئی تھیں۔
اُن کے بقول راستوں کو کھلا رکھنے اور تقریباً 20 لاکھ حجاج کرام کے اجتماع کو رواں دواں رکھنے اور مناسک حج کی بہترین انداز میں ادائیگی کروانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سعودی فورسز اور رضاکار تعینات کیے گئے۔
وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں پاکستانی معاونینِ حج کے موجود نہ ہونے کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ معاونین مخصوص چوراہوں پر موجود تھے۔ لیکن رش زیادہ بڑھنے کی صورت میں انہیں وہاں سے ہٹنا پڑا۔ تاہم رش نارمل ہوتے ہی مشاعر کے راستوں میں پاکستانی معاونین دوبارہ رہنمائی کے لیے موجود تھے۔