|
اسلام آباد — ”بنجر زمین کو آباد کرنے کے اس منصوبے سے ہماری سرسبز زمینیں بنجر ہو جائیں گی، یہ کون سی عقل مندی ہے۔ پہلے ہی پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اہم فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی ہو رہی ہے۔”
یہ کہنا ہے ایوانِ زراعت سندھ کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کا جن کی فصل کا دارومدار نہری پانی پر ہے جو اُن کے بقول ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہا ہے۔
‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ کے تحت چولستان کی بنجر زمین کو آباد کرنے سمیت بنجر رقبے کو آباد کرنے کے لیے دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج جاری ہے۔
اتوار کو قوم پرست تنظیموں، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے سندھ کے مختلف شہروں میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے پر احتجاج کیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کی زیرِ قیادت اس منصوبے سے سندھ اور بلوچستان سمیت سرائیکی بیلٹ کے کسان بھی پانی کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی احتجاج میں شریک نہیں ہوئی، تاہم بلاول بھٹو نے چولستان کینال منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ منصوبہ
گزشتہ برس حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) تشکیل دی تھی جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اسی کے تحت ‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت فوج مجموعی طور پر 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمین حکومت سے لیز پر لے گی اور اسے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ بنجر علاقوں میں پانی پہنچانے کے لیے دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالی جائیں گی۔
‘کارپوریٹ فارمنگ’ زراعت کا ایسا نظام ہے جس کے تحت بڑے کاروباری ادارے یا کارپوریشنز کو زرعی مصنوعات کی پیداوار میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کم رقبے پر زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی ہے۔
اس پروگرام کے تحت سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کو پاکستان میں زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
سندھ کی زمینیں بنجر ہونے کے خدشات
اسی لیے سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے مزید نہریں نکال کر مخصوص علاقوں کو سیراب کرنے کی اس کوشش سے اُن کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کے زرعی شعبے میں سرگرم ہونے سے کاشت کاروں کے خدشات بڑھیں گے۔ لیکن اس کی ذمے دار سیاسی حکومت ہے جو اپنی ذمہ داریاں اور اختیار فوج کو منتقل کر رہی ہے۔
‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ کے تحت اب تک آٹھ لاکھ 12 ہزار ایکڑ زمین پنجاب اور سندھ سے حاصل کی گئی ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق پنجاب میں چولستان کے علاقے میں یہ زمین دی گئی ہے جب کہ سندھ کی نگراں حکومت کے دور میں صوبے میں 52 ہزار ایکڑ زمین ٹرانسفر کی گئی تھی جب کہ دو لاکھ ایکڑ کی نشان دہی کر کے رپورٹ حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔ ان میں ضلع دادو کے کاچھے کے علاقے، سجاول ،بدین اور حیدرآباد کی زمین بھی شامل ہے۔
یہ نہریں کہاں تعمیر کی جائیں گی؟
گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت ہنگامی بنیادوں پر دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر کو مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جن کو اسٹریٹجک کینالز بھی کہا جا رہا ہے۔
ان نہروں کے ذریعے کم سے کم 35 لاکھ ایکڑ زمین آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان میں دو، دو نہریں پنجاب اور سندھ جب کہ ایک، ایک سندھ اور خیبرپختونخوا میں بنائی جائے گی۔
اسٹریٹجک کینال کے اس نیٹ ورک میں چار نہریں پہلے ہی تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں جب کہ پنجاب میں چولستان کینال اور گریٹر تھل کینال فیز ٹو پر ابھی کام شروع نہیں ہوا۔
پنجاب میں چولستان کے علاقے میں دی گئی صحرائی زمین کو سیراب کرنے کے لیے 211 ارب روپے کی لاگت سے چولستان کینال بنائی جا رہی ہے جسے پنجاب اپنے حصے سے پانی دے گا۔
چولستان کینال سے بہاول نگر، بہاولپور کے ریگستان یعنی چولستان میں چھ لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر زمین آباد ہو سکے گی۔ اسی طرح گریٹر تھل کینال فیز ٹو سے 15 لاکھ ایکڑ زمین آباد کی جائے گی۔
‘سندھ نے چولستان کینال کی مخالفت کی تھی’
سندھ میں کاشت کاروں کو سب سے زیادہ اعتراض چولستان کینال فیز ون منصوبے پر ہے جس سے اُن کے خیال میں سندھ کو دستیاب پانی کم ہو جائے گا۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے رُکن احسان لغاری کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت میں ارسا نے کثرتِ رائے سے پنجاب حکومت کے منصوبے چولستان کینال کے لیے این او سی دیا تھا لیکن سندھ نے اس کی مخالفت کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چولستان کینال کی تعمیر سے سندھ اور بلوچستان تو متاثر ہوں گے، مگر پنجاب کی سرائیکی بیلٹ کی آباد زمینوں کی لیے بھی پانی کم ہو جائے گا۔
پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ ان نئی نہروں میں پانی اپنے کوٹے سے دے گا۔ ارسا کے افسران نے بھی تصدیق کی ہے کہ گریٹر تھل کینال اور چولستان کینال کو اپنے حصے سے پانی دینے کے لیے پنجاب حکومت نے ارسا کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔
کیا واقعی زرخیز زمینیں بنجر ہو جائیں گی؟
کاشت کار اور اقتصادی و سماجی ماہرین کے خیال میں اس منصوبے سے بیرونی سرمایہ کاروں کا فائدہ ہو گا لیکن مجموعی طور پر ملکی معیشت میں زراعت کو اس سے نقصان ہو گا۔
زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی سمیت مختلف عوامل کے سبب سندھ میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار 1200 من سے کم ہو کر 600 من تک آ گئی ہے۔ اس طرح فی ایکڑ کاٹن، چاول کی پیداوار میں بھی 50 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے مطابق 1991 کے بعد سے پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے۔
ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آباد زمینوں کے لیے پانی پورا نہیں ہے تو نئی نہروں کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔
معاشی ماہر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی محدود ہے۔ اگر گرین انیشیٹیو پروگرام کے تحت بنجر زمین آباد کئی جائے گی تو پاکستان کی آباد زرعی زمین غیر آباد ہو جائیں گی جو پاکستان کی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بنجر زمینیں آباد کر کے دوسرے ممالک کے لیے جانوروں کا چارہ اُگایا جائے گا۔ لیکن جن آباد زمینوں پر پاکستان کے لیے گندم اُگتی ہے وہ غیر آباد ہو جائیں گی۔
دوسری جانب حکومت ‘ارسا ایکٹ’ میں ترمیم پر بھی غور کر رہی ہے جس میں کسی بھی ڈیم، نہر بیراج کے منصوبے کو اسٹریٹجک منصوبہ قرار دے کر اس کی حفاظت کے لیے فوج سے مدد بھی لے سکتی ہے۔
سیاسی حکومتوں پر تنقید
پاکستان میں فوج کے زیر انتظام تعمیرات، ہاؤسنگ اور کھاد بنانے کی کئی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں فوج گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت زراعت میں بھی سرگرم ہو رہی ہے جو کہ خالصتاً صوبائی معاملہ ہے۔
سماجی اُمور پر کام کرنے والوں کارکنوں کے مطابق ایسے منصوبوں سے سماجی ناہمواری پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
آبی امور اور سماجی ترقی پر کام کرنے والے پروفیسر مشتاق میرانی کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جو اختیارات وفاق سے صوبوں کو دے گئے تھے وہ ‘ایس آئی ایف سی’ کو دیے جا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی میں زراعت اور آپباشی جیسے صوبائی اُمور سے متعلق فیصلے کرنا خطرناک ہے۔
تجزیہ کار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ فوج زرعی معاملات میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے، لیکن اس منصوبے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید فوج ہی سب کچھ ہے اور حکومت بس ‘ربر اسٹمپ’ ہے اور جو کہا جا رہا ہے وہ کیا جا رہا ہے۔
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ سیاسی قیادت نے بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے خود کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی۔ جب سیاسی قیادت کام نہیں کرتی تو پھر کسی اور کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سندھ نے 52 ہزار ایکڑ زمین دی ہے زیادہ زمین تو صوبہ پنجاب کی ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو سے سوال ہونا چاہیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کا مؤقف
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت کی مخالفت کے باوجود چولستان کینال کی منظوری پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مصروف تھا وفاقی حکومت نے سندھ کی مخالفت کے باوجود چولستان کینال کی منظوری دے دی۔
بلاول بھٹو زرداری کے وفاقی حکومت کے خلاف سخت ردِعمل کے بعد وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کا ٹاسک نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار کو دے دیا ہے۔
اطلاعات ہیں کے اسحاق ڈار پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
‘اس میں چاروں صوبوں اور ملک کا فائدہ ہے’
وفاقی وزیرِ آبی وسائل مصدق ملک اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں چاروں صوبوں اور ملک کا فائدہ ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ منصوبے کے تحت سرمایہ کار کو آمدنی کا 40 فی صد اور اتنا ہی حصہ صوبے کو ملے گا جب کہ 20 فی صد رقم زرعی تحقیق پر خرچ ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے بلوچستان کی بھی 10 لاکھ ایکڑ بنجر زمین آباد ہو گی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت کو اعتراض تھا تو پھر اس منصوبے کے لیے زمین کیوں دی گئی۔
‘ارسا’ کے ڈائریکٹر ریگولیشن و ترجمان خالد ادریس رانا کا کہنا ہے کہ چھ نہروں کی تعمیر کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چشمہ رائٹ بینک کینال، گریٹر تھل کینال، کچھی کینال اور ریٹی کینال کے منصوبے جنرل مشرف کی حکومت نے منظور کیے تھے۔
ارسا ترجمان کا کہنا تھا کہ چولستان کینال کو دریائے سندھ سے نہیں بلکہ دریائے چناب یا جہلم سے پانی دیا جائے گا۔ لہذٰا اسے دریائے سندھ سے پانی دیے جانے کی بات درست نہیں ہے۔