الیکشن میں پولنگ ختم ہونے کے بعد صحافیوں کی اگلی منزل الیکشن کمیشن ہوتی ہے جہاں ایک میڈیا سیل فعال ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی پولنگ ختم ہونے کے بعد صحافی اپنی اسی منزل پر پہنچ گئے۔
الیکشن کمیشن میں لابی سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک جانب چائے بار قائم کیا گیا تھا جہاں کچھ لوگ کشمیری چائے پی رہے تھے۔ ساتھ ہی بسکٹس بھی رکھے تھے۔ چند قدم چلنے کے بعد ہی میں اس ہال میں پہنچ چکی تھی جہاں نتائج وصول ہو رہے تھے اور گنتی جاری تھی۔
ایک جانب الیکشن کمیشن کا عملہ کیمپیوٹرز اسکرین پر نتائج اکھٹے کر رہے تھا۔ نتائج مرتب کرنے والے عملے کے ایک شخص نے اسکرین پر نجی ٹی وی چینل پر جاری ہونے والے ایک غیر سرکاری نتیجے کو دیکھتے ہوئے حیرت سے دوسرے سے پوچھا:”سیالکوٹ میں ریحانہ ڈار خواجہ آصف سے ہار گئیں؟”
سامنے بیٹھے شخص نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے جواب دیا: ’’بس دیکھ لو۔‘‘
’ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں‘
الیکشن کمیشن نے جدید ٹیکلنالوجی سے لیس میڈیا سیل تیار کیا تھا جہاں سب کچھ تھا لیکن جن نتائج کے لیے سب اہتمام کیا گیا تھا بس وہی نہیں مل رہے تھے۔
میں نے نتائج مرتب کرنے والے نظام کی آزمائش کے لیے میڈیا سینٹر میں ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کا نمبر ڈال کر کلک کیا تو سکرین پر لکھا آیا کہ آپ کا مطلوبہ صفحہ کھل نہیں سکتا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ سروس ڈاون ہے۔
الیکشن کمیشن کے سیل میں سامنے کرسی پر الیکشن کمیشن کے ڈی جی پولیٹیکل فائنانس مسعود شیروانی بیٹھے تھے۔
ان سے انتجابات کے مکمل نتائج کا پوچھا تو انہوں نے عقب میں لگی اسکرین کی جانب اشارہ کر دیا۔ دوبارہ پوچھا کہ مکمل نتائج کب آئیں گے تو انہوں نے کہا شام تک۔ پھر کچھ سوچ کر بولے “یا رات تک”۔
اسی دوران ترجمان الیکشن کمیشن نگہت صدیقی وہاں پہنچیں تو ان سے بھی بات ہوئی۔ پہلا سوال کیا نتائج میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
نگہت صدیقی نے اس پر کہا کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد ووٹنگ کی گنتی مکمل ہونے کے بعد تمام سامان سمیٹ کر آر او آفس پہچانا ہوتا ہے جس میں وقت لگتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش بھی نتائج میں تاخیر کی ایک وجہ بنی ہے۔
اس سوال پر کہ عملے کو وائی فائی کی سہولت کیوں فراہم نہیں کی گئی؟ تو ان کا جواب تھا: “آپ آئیڈیل صورتِ حال کی بات کر رہی ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو یہ سہولت کیسے دیتے؟” یہ کہتے ہوئے ترجمان سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دینے چلی گئیں۔
’الیکشن کمیشن کی راہ داریوں میں گونجتی آوازیں‘
نتائج موصول کرنے والے ڈیسک کا جائزہ لے کر واپس باہر نکلی تو عمارت کے لان میں صحافیوں کے لیے بنائے گئے میڈیا سیل پہنچی جہاں سب اپنے کام میں مصروف تھے۔ میڈیا سیل کے باہر وائی فائی کی آئی ڈی اور پاس ورڈ کو کاغذ پر لکھ کر چسپاں کیا گیا تھا۔
سیل میں تقریباً سب ہی سیاسی صورتِ حال پر بات چیت میں مشغول تھے۔ کچھ رپورٹرز لائیو بیپرز دے رہے تھے۔
ایک بڑی اسکرین نصب تھی جس پر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے نتائج آ رہے تھے اور جیسے ہی نتیجوں میں اپڈیٹ آتی تو صحافی کاپی پینسل یا کچھ موبائل پر نوٹ کر لیتے اور فون کر کے اپنے دفتر میں اطلاع بھی دے رہے تھے۔
یہاں کچھ صحافیوں سے سیایسی صورتِ حال پر بات چیت بھی کی جس کے بعد باہر نکلی تو سامنے گیٹ سے سفید شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عامر مسعود مغل آرہے تھے۔
ان کے ہاتھ میں فائل تھی اور وہ اپنی شکایت درج کرانے کے لیے الیکشن کمیشن پہنچے تھے۔ قریب آ کر کہنے لگے: ’’مجھے پہچانا؟ میرے ساتھ گزشتہ رات 42 ہزار ووٹوں کی ڈکیتی ہوئی ہے۔ میرے پاس اپنے حلقے کے 100 فی صد پولنگ اسٹیشنز کے نتائج دکھانے والے فارم 45 موجود ہیں جن کے مطابق میں 42 ہزار ووٹ سے جیت چکا تھا۔ مگر ریٹرننگ آفیسر مجھے ہارا ہوا دکھا رہاہے۔‘‘
شام سات بجے الیکشن کمیشن سے نکلی تو سامنے اسکرین پر ابھی تک نتائج مکمل نہیں ہوئے تھے۔
گیٹ سے الیکشن کمیشن کے عملے کا ایک سینئر رکن فون پر کسی کو یہ کہتے ہوئے اندر جا رہا تھا: “میری اپنی بہن کے سسر جیتا ہوا الیکشن ہار گئے ہیں میں کیا کروں؟ دیکھیں یہ ہمارا کام نہیں ہے۔”
میرے پاس سے گرزرتے ہوئے اس اہل کار کی آواز الیکشن کمیشن کی عمارت کی راہ داریوں میں میں ایک لمحے کو گونجی اور پھر مدھم پڑ گئی۔