|
وفاقی وزرا کی تقریبِ حلف برداری کے لیے ایوانِ صدر کے مرکزی ہال میں داخل ہوا تو ایوانِ صدر کا عملہ وزرا کی لگائی گئی نشستوں پر حلف ناموں کی فائلیں رکھ رہا تھا۔
ہال زیادہ تر خالی تھا۔ میں وزرا کی کرسیوں کے سامنے پڑی حلف نامے کی فائلوں کو ایک نظر دیکھتا گیا کہ وفاقی وزرا میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی ہے تاہم فائلوں پر لکھے ہوئے نام وہی تھے جن کا اعلان پیر کی صبح کیا جا چکا تھا۔
ایک جانب صحافیوں کی نشستیں لگائی گئی تھیں۔ وہاں جا کر ساتھی صحافیوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چہ موگوئیاں چل رہی تھیں کہ کون سی وزارت کس کو ملنے جا رہی ہے۔
وزرا کی لگائی گئی 19 کرسیوں کی ترتیب سے کچھ واضح ہو چکا تھا کہ کون سی بڑی وزارت کسے دی جا رہی ہے۔ ایک جانب سب سے پہلے اسحاق ڈار کی نشست تھی تو دوسری جانب سے پہلے محسن نقوی کی کرسی جس سے صحافیوں نے اندازہ لگا لیا کہ اسحاق ڈار وزیرِ خارجہ اور محسن نقوی وزیرِ داخلہ ہوں گے۔
ریاض حسین پیرزادہ ہال میں داخل ہوئے تو ان سے حال احوال کے بعد پوچھا کہ آپ کے پاس کون سا قلم دان آ رہا ہے تو کہنے لگے ابھی معلوم نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کو اندازہ تو ہو گا تو کہنے لگے کہ میں نے وزیرِ اعظم سے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے علاوہ کوئی بھی وزارت دے دیں۔
میں نے پوچھا آپ نے پچھلے دور میں انسانی حقوق کی وزارت تو اچھی طرح سے چلائی تھی۔ تو کہنے لگے کہ اس ملک میں محروم طبقات کے حقوق کی بات کریں تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور میں حلف اٹھا کر یہ نہیں کر سکتا کہ مظلوم کی بات بھی نہ کروں۔
سینیٹر مصدق ملک ہال میں داخل ہوئے تو ان سے بھی یہی پوچھا کہ وزارت کون سی ہے آپ کی؟ تو انہوں نے فوراً کہا کہ ابھی معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ دوبارہ سے توانائی کی وزارت لے رہے ہیں؟
تو پنجابی میں کہنے لگے ‘تسی دسیا اے مینوں تے پتا نہیں’ یعنی یہ آپ سے معلوم ہوا ہے کیوں کہ مجھے وزیرِ اعظم نے ابھی تک نہیں بتایا۔
اسی دوران سابق وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ مصدق ملک کے پاس پہنچے۔ ہاتھ ملانے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کی وزارت کا تو سب کو معلوم ہے۔ تو جواباً کہنے لگے کہ ‘میرا پرچہ پہلے سے آؤٹ ہے۔’
اسی دوران علیم خان بھی قریب آن پہنچے تو ان سے بھی یہی سوال کیا کہ کون سی وزارت ہے آپ کی تو اعظم نذیر تاڑر کے جملے کو دہراتے ہوئے بولے کہ ‘میرا پرچہ ابھی آؤٹ نہیں ہوا ہے۔’
اسی اثنا میں بینکر محمد اورنگزیب رمدے پر نظر پڑھی تو میں ان کی طرف لپکا اور سلام کے بعد پوچھا کہ معاشی پلان کیا ہو گا؟ اسحاق ڈار والا یا مفتاح اسماعیل والا؟
محمد اورنگزیب کہنے لگے کہ پلان سب موجود ہیں اب عمل درآمد کا وقت ہے اور آپ دیکھیں گے کہ اب عمل ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
محمد اورنگزیب مزید کہنے لگے کہ وہ اپنی اچھی نوکری چھوڑ کر قومی خدمت کے لیے آئے ہیں تو قوم عمل درآمد دیکھے گی۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے متعلق سوال کیا تو بولے کہ ابھی مجھے جارج سنبھال لینے دیں ایک دو روز کے بعد آپ کو بلا کر اس پر بتاؤں گا۔
اسی اثنا میں محسن نقوی ہال میں داخل ہوئے تو کچھ صحافی ان کے گرد جمع ہو گئے، میں بھی پہنچ گیا۔ سلام کے بعد میں نے کہا کہ آپ کی وزارت کا تو سب کو معلوم ہے تو کہنے لگے ابھی اعلان ہونے دیں۔
چوہدری سالک حسین بھی ہمارے درمیان پہنچے اور محسن نقوی کو مبارک باد دی۔ جواب میں محسن نقوی نے بھی سالک حسین کو مبارک دی تو میں نے کہا کہ ایک ہی گھر میں دو، دو وزارتیں اقربا پروری نہیں ہے۔ تو چوہدری سالک حسین بولے کے محسن نقوی آزاد حیثیت میں آئے ہیں اور میں مسلم لیگ (ق) سے ہوں۔
خواجہ آصف سے پوچھا کہ خواجہ صاحب دفاع دوبارہ آپ کے کاندھوں پر آ رہا ہے تو کہنے لگے لگتا ایسا ہی ہے لیکن دیکھیں ابھی معلوم نہیں ہے۔
خواجہ آصف کی نشست محسن نقوی کے بعد تھی وہ ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے تو محسن نقوی اپنی نسشت سے اٹھ گئے اور خواجہ آصف کو احتراماً اپنی نشست پر بٹھا دیا اور خود اُن کی نشست پر بیٹھ گئے۔ تو میں نے کہا کہ یہ صرف نشستیں تبدیل کر رہے ہیں یا وزاتیں بھی بدل رہے ہیں تو خواجہ صاحب پنجابی میں بولے کہ ‘میری وزارت وی ایدھے کول ای اے۔’ (میری وزارت بھی انہی کے پاس ہے)۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول کو دیکھا تو ان کی طرف بڑھا۔ کہنے لگے کہ میں جہاز سے اترا تو پیغام ملا کہ آپ کی حلف برداری ہے جب کہ میں نے کسی اور کا نام کابینہ کے لیے دے رکھا تھا۔
میں نے کہا کہ آپ کو وزارت کون سی مل رہی ہے بین الصوبائی رابطہ یا انفارمیشن ٹیکنالوجی تو خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آئی ٹی کی وزارت طے ہوئی تھی بین الصوبائی رابطہ مسلم لیگ (ق) کو جائے گی۔
شزہ فاطمہ خواجہ سے کہا کہ کابینہ میں واحد خاتون وزیر ہیں کیسے دیکھتی ہیں نئی کابینہ کو تو کہنے لگیں کہ یہ نوجوان، تجربہ کار اور مختلف شعبوں کے ماہر لوگوں کا امتزاج ہے۔
ہال میں اعلان ہوا کہ سب اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں اور کچھ دیر کے بعد ہی صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف ہال میں داخل ہوئے۔ صدر زرداری نے انگریزی میں وزرا سے حلف لیا جو کہ حالیہ کچھ عرصہ میں اردو میں لیا جاتا رہا ہے۔
حلف کے بعد آصف زرداری وفاقی وزرا سے ملے اور مہمانوں سے ملے بغیر ہی اپنے دفتر میں چلے گئے جہاں وزرا ان سے جا کر ملتے رہے۔ شہباز شریف نے بھی مہمانوں سے ملنے کی روایت کو اہمیت نہ دی اور ایوان صدر سے رخصت ہو گئے۔
حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف، بلاول بھٹو اور سروسز چیف شریک نہیں ہوئے جو کہ ایک روز قبل آصف زرداری کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب میں شریک تھے۔
حلف کی تقریب کے بعد چائے پر احسن اقبال سے بات چیت ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ تجربہ کار اور باصلاحیت لوگوں پر مشتمل ہے اور یقین ہے کہ کابینہ عوام کی توقعات پر پوری اترے گی۔
حلف برداری کی تقریب کے بعد دوسرے ہال میں پہنچے تو وزرا کو پیغام دیا گیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ساڑھے چار بجے کابینہ کا اجلاس بلا لیا ہے۔ تو وزرا ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ آئیں کابینہ میں وزارتوں کا فیصلہ بھی کر لیں۔