اسلام آ باد ( سیا سی تجزیہ۔۔ رانا غلام قادر ) سائفر کیس‘ توشہ خانہ اور اب عدت کے دوران نکاح کیس میں سزاسے پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے سزا میں ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ۔نکاح کیس نے نہ صرف عمران خان بلکہ اہلیہ بشریٰ بیگم کی اخلاقی ساکھ کو دھچکا لگایا ،شرعی حکم کی پاسداری نہ کرنے کی سے دونوں کا روحانی اور مذہبی امیج تار تار ہوگیا ، عمران خان مکافات عمل کا شکار ہوئے ۔ ان کا بے جا تکبر انہیں لے ڈوبا ،کپتان نے ماضی میں وکلاء کے ذ ریعے کیسز کی سماعت میں غیر ضروری التواء کی پالیسی سے بہت فائدہ اٹھایا لیکن اب ان کی یہ حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی ۔انہوں نے نہ صرف کیسز کیلئے وکلاء پر انحصار کیا بلکہ پارٹی بھی وکلاء کے سپرد کردی مگر قسمت اب ان کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی ،ہر آنے والا دن ان کیلئے شکست اور مایوسی کا پیغام لا رہا ہے، پانچ دنوں میں انہیں تین سزائیں مل چکی ہیں،تینوں مقدمات میں ان کی مجموعی سزا 21سال ہوچکی ، پہلی بار پاکستان کی سیا سی تاریخ میں یہ ہوا ہے کہ سا بق وزیر اعظم کی اہلیہ کو بھی سزا ملی ،سابق خاتون اول اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کو توشہ خانہ کیس میں چودہ سال اور عدت کی مدت مکمل کئے بغیر نکاح کا الزام ثابت ہونے پر سات سال قید کی سزا ملی ۔ان تینوں کیسز میں کپتان کو ملنے والی سزائوں کے ہمہ گیر اثرات ہیں،تینوں کیسز کی نوعیت الگ الگ ہونے کی وجہ سے ان کے ثابت ہونے کے مضمرات بھی الگ نوعیت کے ہیں۔ سائفر کیس کا تعلق ریاست کے راز کی پاسداری نہ کرنے اور خفیہ دستاویز کو گم کرنے اور امریکا سے تعلقات کو نقصان پہنچانے سے ہے، اس کیس نے ان کی بطور وزیر اعظم کام کرنے کی اہلیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔ توشہ خانہ کیس قومی خزانہ کی خیانت سے ہے کیونکہ بطور وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی تحائف کی کم قیمت لگوا کر تحائف لئے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ،اسی لئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مجموعی طور پر ایک ارب 57کروڑ روپے جر مانہ بھی عائد کیا گیا، ا س کیس نے ان کے صادق اور امین کے دعوے یا بنا ئے گئے امیج کو ٹھیس پہنچائی ۔اب عدت کی مدت مکمل کئے بغیر نکاح کے کیس نے نہ صرف عمران خان بلکہ اہلیہ بشریٰ بیگم کی اخلاقی ساکھ کو دھچکا لگایا ، عمران خان ریاست مدینہ کے دعویدار تھے۔ ہر تقریر قران کی آیت سے شروع کرتے تھے۔ تسبیح ہاتھ میں رکھتے تھے، انہیں پارٹی ورکرز اب مرشد کا لقب دیتے تھے، اسی طرح بشریٰ بیگم نے اپنے آپ کو روحانی شخصیت کے طور پر متعارف کرایا ہواتھا،وہ پردے کا اہتمام ، دم درود اور روحانی علاج کرتی تھیں، القادر یو نیو رسٹی بھی روحانی تعلیم کیلئے بنائی جا نی تھی،ان کے نکاح کی شرعی حیثیت ان کے مذہبی پس منظر کی وجہ سے اہمیت کی حامل تھی۔