|
کراچی _ سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال سرکاری محکموں میں 54 ہزار سے زائد بھرتیوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دعوے کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
عدالت نے ہفتے کو جاری کردہ اپنے فیصلے میں اگست 2023 کے اشتہارات کے تحت دی گئی تمام ملازمتیں خلافِ قانون قرار دی ہیں۔
درخواست گزار ایم کیو ایم نے ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ صوبائی حکومت انتخابات سے قبل 100 سے زائد اشتہارات کے ذریعے واک ان انٹرویو کی بنیاد پر غیر قانونی طریقے سے من پسند افراد کو ملازمتیں دی تھیں۔
درخواست گزار نے حکومتِ سندھ سمیت 145 محکموں اور خودمختار اداروں کو فریق بنایا تھا اور جن اداروں میں ملامتیں دینے کی نشاندہی کی تھی ان میں سندھ لوکل گورنمنٹ، محکمۂ تعلیم، صحت، سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن، ویٹرنری ڈپارٹمنٹ، محکمہ افرادی قوت، سوشل ویلفیئر سمیت دیگر محکمے شامل تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تمام آسامیاں سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے تحت شہری اور دیہی علاقوں کے لیے مختص کوٹے کے مطابق تقسیم کی جائیں۔
فیصلے کے مطابق گریڈ پانچ سے 15 میں کی جانے والی بھرتیاں علاقائی/ضلعی بنیادوں پر کی جائیں اور گریڈ ایک سے چار تک کی بھرتیاں سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے مطابق مقامی بنیادوں پر کی جائیں۔
عدالت نے سندھ پرمننٹ ریزیڈنس سرٹیفیکٹ کے حامل افراد کو ہی ملازمتیں دینے کا حکم دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں مزید کہا ہے کہ کوئی بھی بھرتی واک ان انٹرویوز کی بنیاد پر نہ کی جائے اور خالی آسامیوں سے زیادہ بھرتیاں بھی نہ کی جائیں۔
بھرتیوں پر حکمِ امتناع
درخواست گزار ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دورانِ سماعت مؤقف اختیار کیا تھا کہ سندھ کی سابقہ حکومت کی مدت گزشتہ سال 11 اگست کو ختم ہونی تھی۔ لیکن حکومت نے اپنے سیکریٹریز، محکموں اور خود مختار اداروں کے ذریعے ہزاروں آسامیوں کو پُر کرنے کی غیر قانونی اور غیر قانونی مہم چلائی۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ جولائی اور اگست 2023 میں سندھ حکومت نے مختلف محکموں اور اداروں میں انتہائی عجلت میں بھرتیوں کے اشتہارات جاری کیے تاکہ تقرریوں کے عمل کو ضابطہ اخلاق کی تکمیل کے بغیر مکمل کیا جا سکے۔
درخواست گزار کے مطابق بعض اشتہارات میں امیدواروں کو واک ان انٹرویوز کے لیے آنے کو کہا گیا تھا جس کا مقصد سندھ حکومت کے من پسند افراد کو ملازمتیں بانٹنا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ظفر احمد راجپوت نے نو اگست 2023 کو اشتہارات کے تحت ہونے والی بھرتیوں کے عمل پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔
معاملے کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے عدالت کو بتایا تھا کہ صوبائی حکومت تمام اشتہارات واپس لینے کو تیار ہے اور بھرتیوں کے تمام عمل کو قانون کے مطابق دہرایا جائے گا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اشتہارات کے تحت تقرریوں کی پوری مشق عقل سے ماورا تھی کیوں کہ یہ سارا عمل غیر شفاف اور غیر قانونی تھا۔ گریڈ ایک سے چار تک کی پوسٹوں کو غیر قانونی طور پر مشتہر کیا گیا تھا کیوں کہ اس طرح کی پوسٹوں پر اس علاقے کا نام نہیں تھا جہاں سے افراد کو شامل کیا جانا تھا، جو سروس رولز کے مطابق لازمی تھا جس کے تحت ایسی پوسٹوں کو ایک پرو فائل کرنا ضروری تھا۔