|
“اگر ہمارے پاس سر چھپانے یا پیٹ بھر کر کھانے کے لیے ہوتا تو ہم کبھی اپنی بچی کی شادی نہ کرتے لوگوں کی نظر میں ہم برے بن گئے لیکن ہم نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ہے اسے بیچا نہیں۔”
یہ کہنا ہے چالیس سالہ دین محمد (فرضی نام) کا جو ضلع دادو کے ایک گاؤں خان محمد ملاح گاؤں کے رہائشی ہیں اور سال 2022 کے سیلاب کے متاثرین میں سے ایک ہیں۔
دین محمد پانچ بچوں کے باپ ہیں جو سیلاب سے قبل مستری کا کام کرتے تھے لیکن سیلاب کے بعد ان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں دو گھرانوں کو بیٹیوں کی شادی کے عوض رقم لیتا دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ بھی ایسا کر کے اپنے بچوں کو بھوک افلاس سے بچا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ نے حال ہی میں رپورٹ کیا تھا کہ ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے اطراف کے دیہات میں 45 ایسی کمسن لڑکیاں ہیں جن کی شادیاں والدین نے پیسے کے عوض کیں۔ سسرال سے لیے گئے پیسوں کی مالیت ڈیڑھ سے دو لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
ایسے دیہات جہاں لوگوں کی یومیہ آمدنی تین سے چار سو روپے ہو وہاں یہ رقم بہٹ بڑی سمجھی جاتی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ لیکن اس نوٹس کے بعد خان محمد ملاح سمیت دیگر دیہات کے ایسے خاندان جنہوں نے پیسے لے کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں اب وہ خوف محسوس کر رہے ہیں۔
بار بار رابطہ کرنے پر نام نہ بتانے کی شرط پر بارہ سالہ حمیدہ (فرضی نام) کے والد کا کہنا تھا کہ وہ سیلاب سے قبل کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن سیلاب سے تباہ ہونے والی فصلوں اور بہت عرصے تک زمینوں پر کھڑے رہنے والے پانی نے ان کے بچوں سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی تھی۔
حمیدہ کے والد کے مطابق ایک شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان کی بیٹی کی شادی پیسوں کے عوض کروا سکتے ہیں۔ نہ انہیں جہیز دینا پڑے گا اور نہ ہی کوئی تیاری کرنا ہوگی بلکہ شادی کے عوض لڑکے والے انہیں مکان کی تعمیر اور کام کے لیے خطیر رقم بھی دیں گے۔
حمیدہ کے والد کے مطابق، انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کرا دی جس کے بعد انہیں دو لاکھ روپے دیے گئے جس سے انہوں نے اپنے ٹوٹے گھر کی دیواروں اور چھت کی مرمت کروائی اور گھر میں سال بھر کی گندم بھی ڈلوائی۔
جب مدد کرنی تھی اس وقت نہیں کی، اب نوٹس کیوں؟
حمیدہ کے والد نے کہا “مجھے اپنے سات بچوں کو پالنا بھی تھا اس لیے اپنی بارہ سالہ بیٹی کی شادی کر دی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس کا دولہا بچی سے پچیس سال بڑا ہے۔ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو ہمارے سر پر چھت بھی نہ ہوتی۔”
حمیدہ کے والد نے کہا “اب ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ سرکار کہیں ہم سے یہ سب نہ چھین لے۔ جب انہیں ہماری مدد کرنی چاہیے تھی تب نہیں کی اور اب کیوں نوٹس لے رہے ہیں؟”
سن 2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب سے سب سے زیادہ سندھ اور بلوچستان متاثر ہوئے تھے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے آثار اب بھی باقی ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ اکثریتی خاندانوں کا تعلق کھیتی باڑی سے رہا ہے جہاں وہ کام کرنے کے عوض سال بھر کے لیے گندم اور انتہائی قلیل معاوضہ لے کر گزر بسر کرتے ہیں۔ لیکن 2022 کے سیلاب کے بعد بہت سے لوگوں کو نہ صرف اپنے آبائی علاقے چھوڑنا پڑے بلکہ پیشے بھی تبدیل کرنا پڑے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غیر سرکاری تنظیم سجاگ سنسار کے بانی معشوق برہمانی کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ خاندان زندہ رہنے کے لیے کوئی بھی ذرائع استعمال کرنے پر مجبور تھے اور ان کے لیے یہ آسان حل تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی پیسوں کے عوض شادی کر دیں۔
سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی قانوناً جرم ہے۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے سندھ کے بہت سے علاقوں میں کمسن بچیوں کی شادیاں نہ صرف ہوتی ہیں بلکہ وہ کم عمری میں ماں بھی بن جاتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن امر سندھو کہتی ہیں ریاست میں قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوپاتا۔ معاشرے میں آج بھی خواتین کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور اس طرح کے معاشرے میں عورت کو اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امر سندھو نے دادو میں کمر عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق کہا کہ یہ سندھ کے ایک ضلع سے رپورٹ ہوا ہے یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
امر سندھو کے مطابق “جو بھی حالات تھے لڑکی شادی ہو کر محفوظ تو ہو گئی” یہ سوچ بھی خلافِ قانون شادیوں کی وجہ ہے۔ ان کے بقول، ہم اب بھی بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور انہیں معاشی خود مختاری دینے کے معاملے میں کہیں پیچھے ہیں۔ اس لیے جہاں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جائے وہاں ایسے واقعات نظر آئیں گے جیسے دادو میں ہوئے ہیں۔
دادو کے خان محمد ملاح گاؤں میں گزشتہ برس مون سون کے بعد سے اب تک 45 کم عمر لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہے اور ان میں سے 15 شادیاں رواں برس مئی اور جون میں ہوئی تھیں۔
معشوق برہمانی کے مطابق 2022 کے ایک سیلاب متاثرہ خاندان نے اپنی دس سالہ بیٹی مہتاب کی شادی کا فیصلہ کیا تھا لیکن سجاگ سنسار کی مداخلت پر یہ شادی نہیں ہو سکی تھی۔ ان کے بقول، مہتاب اب اسی این جی او سے ہنرمند بن رہی ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر کسی حد تک خود مختار ہوسکیں لیکن بچی اب بھی خوفزدہ ہے کہ اگر دوبارہ سیلاب آنے کے بعد ان کا خاندان دربدر ہوا تو انہیں کم عمری میں ہی شادی کرنی پڑ سکتی ہے۔
امر سندھو کے نے 2010 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب حیدر آباد اور کوٹری کے سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں وومن ایکشن فورم نے خواتین سے ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل سنے تو کئی ایسی کہانیاں سننے کو ملیں جو بہت دردناک تھیں۔
ان کے بقول سیلاب متاثرین جب اپنے آبائی علاقوں کو لوٹے تو ان کے پاس کوئی رقم نہیں تھی۔ ایسے میں کچھ خاندانوں نے دور دراز کے علاقوں میں سفر کے لیے جانے والے ٹرک ڈرائیوروں کو اپنی کمسن بیٹیاں دیں اور اس کے بدلے اپنے سامان اور خاندان کی آمد و رفت کا بندوبست کیا۔ اسی طرح کچھ خاندانوں نے اپنے کنبے کی کفالت اور گھروں کو کھڑا کرنے کے عوض اپنی بچیوں کو وڈیروں کے حوالے کیا جو ان سے بلامعاوضہ کام کرواتے تھے کیوں کہ ان کے خاندان رقم لے چکے تھے۔
امر سندھو کہتی ہیں اس طرح کے واقعات کے پیچھے غربت ہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
معشوق برہمانی کا کہنا ہے کہ دادو میں کمر عمر بچیوں کی شادی کی خبر اور اس پر وزیرِ اعلیٰ کے نوٹس کے بعد متاثرہ خاندان شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ یہی نہیں مقامی صحافیوں کی جانب سے جانچ پڑتال اور والدین سے بیٹیوں کی شادی کی دستاویزات طلب کرنے جیسے واقعات پر یہ خاندان ذہنی کوفت کا سامنا کر رہے ہیں۔